مودی حکومت کے اقدام کی مخالفت کرنے والے آلوک ورما کی بڑھیں مشکلیں

آلوک ورما سبکدوشی کے بعد ملنے والے ’ریٹائرمنٹ بینیفٹ‘ کے لیے در در بھٹک رہے ہیں۔ حکومت کے ذریعہ سی بی آئی ڈائریکٹر عہدہ سے ہٹانے کو لے کر چیلنج دینا آلوک ورما کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کبھی ملک کے سب سے طاقتور پولس افسر تصور کیے جانے والے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما سبکدوشی کے بعد جی پی ایف سمیت ملنے والے دیگر ’ریٹائرمنٹ بینیفٹ‘ کے لیے گزشتہ کچھ مہینوں سے در در بھٹک رہے ہیں۔ انڈین پولس سروس کے 1979 بیچ کے افسر آلوک ورما کی پچھلے پورے سروس پیریڈ پر اس وقت روک لگا دی گئی تھی جب مرکزی حکومت کے ذریعہ انھیں سی بی آئی ڈائریکٹر عہدہ سے ہٹانے کے فیصلے کو انھوں نے چیلنج پیش کیا تھا۔

مودی حکومت کی وزارت داخلہ کے ذریعہ 14 اکتوبر کو لکھے گئے خفیہ خط کو دیکھنے کے بعد آئی اے این ایس کو پتہ چلا کہ آلوک ورما کو ملنے والے جی پی ایف اور دیگر فائدوں پر روک لگا دی گئی ہے، کیونکہ وہ غیر اختیاری چھٹی پر چلے گئے تھے، جسے سرکاری خدمات متاثر کرنے کا سنگین معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ وزارت داخلہ کے خط نمبر 2019/4/45020 کے مطابق ’’آلوک ورما کے معاملے کی وزارت کے ذریعہ جانچ کرنے کے بعد ان کی 11 جنوری 2019 سے لے کر 31 جنوری 2019 کی غیر حاضری کی مدت کو بغیر جوابدہی کی شکل میں ماننے کا فیصلہ لیا گیا۔‘‘


آسان الفاظ میں کہیں تو ورما کی غیر اختیاری چھٹی کو خدمات میں خلل ڈالنا مانا گیا ہے، جس سے وہ اپنے ریٹائرمنٹ بینیفٹ سے محروم ہو گئے ہیں۔ جی پی ایف روکنے کے متعلق وزارت نے آلوک ورما کے خلاف دو الگ الگ ڈسپلن پر مبنی کارروائی کے معاملے (مورخہ 31.01.2019 اور 18.04.2019) کا تذکرہ کیا ہے جس میں ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔

سابق سی بی آئی سربراہ آلوک ورما اور ان کے ماتحت سی بی آئی کے خصوصی ڈائریکٹر راکیش استھانہ کے درمیان ہوئے مشہور تنازعہ کے سبب دونوں گروپ کے افسران نے ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی، جسے وزارت داخلہ نے سنجیدگی سے لیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ورما نے اپنے ماتحت راکیش استھانہ کے خلاف غلط ایف آئی آر درج کروانے میں مبینہ طور پر اپنے عہدہ کا غلط استعمال کیا۔ استھانہ نے اس سلسلے میں آلوک ورما پر بدعنوانی کے کچھ اہم معاملوں کی لیپا پوتی کرنے کا الزام لگایا تھا۔


اس تنازعہ میں آلوک ورما کے نزدیکی افسران کے گروپ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملازم کسی متنازعہ معاملہ یا جانچ کے دائرے میں ہو تو بھی اس کے جی پی ایف پر روک نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق جی پی ایف ایک ایسا فنڈ ہے جس میں سرکاری ملازمین اپنی تنخواہ کا ایک معینہ فیصد تعاون کرتا ہے اور جمع رقم کی ادائیگی ملازم کو اس کی سبکدوشی پر کی جاتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس بنیاد پر ورما نے گزشتہ 27 جولائی کو حکومت کو ایک خط لکھ کر اپنے جی پی ایف کی آخری ادائیگی جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں قانونی معاملوں کے محکمہ سے رائے طلب کی تھی کہ کیا ورما کو جی پی ایف کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ لیکن واضح رائے دینے کی جگہ محکمہ کا مشورہ ہے کہ وزارت داخلہ کو اس معاملے میں وزارت محنت اور وزارت مالیات سے رابطہ کرنا چاہیے۔


اس کے بعد اب وزارت داخلہ نے وزارت محنت سے اس سلسلے میں رائے مانگی ہے۔ ساتھ ہی وزارت مالیات سے ورما کو جی پی ایف کی ادائیگی کیے جانے کے سلسلے میں مشورہ بھی طلب کیا گیا ہے۔ سرکار کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ورما کو جی پی ایف اور دیگر فائدہ دینے سے متعلق مسئلے پر فیصلہ اس وقت متعلقہ وزارت میں زیر التوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Oct 2019, 11:11 AM