جنگلات دہلی کے پھیپھڑے ہیں، ان کا تحفظ کیا جانا چاہئے: دہلی ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ نے جنگلات میں تجاوزات پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جنگلات کو ’دہلی کے سبز پھیپھڑے‘ قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا کہ انہیں بحال کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہ ہمیں آلودگی سے بچاتے ہیں

دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

 نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے جنگلات میں تجاوزات پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جنگلات کو ’دہلی کے سبز پھیپھڑے‘ قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا کہ انہیں بحال کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہ ہمیں آلودگی سے بچاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کسی کو بھی جنگل کے علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور جو ایسا کرتے ہیں انہیں بے دخل کیا جانا چاہئے۔

ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس منموہن اور منپریت سنگھ اروڑہ کی بنچ نے مذہبی ڈھانچوں کے نام پر تجاوزات سمیت غیر قانونی تعمیرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ، ’’جنگلات کو بحال ہونے دیجئے اور ان کی محفوظ کی جانی چاہئے۔ یہ دہلی کے سبز پھیپھڑے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’یہ سمجھیں کہ لوگ آلودگی کی وجہ سے مر رہے ہیں، یہ ہمارا واحد محافظ ہے، یہ ہمارا آخری قلعہ ہے۔‘‘


واضح رہے کہ ہائی کورٹ ہمانشو داملے اور ایک دیگر شخص کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کر رہا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قدیم یادگاروں، خاص طور پر مہرولی میں عاشق اللہ کی درگاہ کو انہدام سے بچایا جائے۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ درگاہ 1317 عیسوی کی ہے اور یہ ملک کے قدیم ترین اور اہم ترین سلاطینی دور کے ڈھانچوں میں سے ایک ہے اور اس میں 13ویں صدی کے صوفی بزرگ بابا فرید کی چلّہ گاہ بھی شامل ہے۔

حالانکہ درگاہ کی تصاویر کو دیکھ کر بنچ نے کہا کہ یہ وہاں کے ڈھانچے پر نصب نئی ٹائلیں ہیں اور اسے ایک سیاحتی مقام کے طور پر تیار کیا گیا ہے، جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔ اس کے جواب میں درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ اگر کسی چیز کا استعمال سینکڑوں سالوں سے عبادت گاہ کے طور پر کیا جاتا رہا ہے تو ظاہری طور پر اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ وہ 800 سال پرانے مقامات کی بات کر رہے ہیں اور وہ ان جنگلات سے پرانے ہیں لیکن بنچ نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے۔‘‘

بنچ نے کہا ’’ہم جنگلات کے علاقوں کو صاف کر رہے ہیں تاکہ لوگ دہلی میں سانس لے سکیں۔ یہاں بہت زیادہ آلودگی ہے، ان میں سے کچھ سے یہ واضح ہے کہ یہ نئے ڈھانچے ہیں۔ یہ سب تجاوزات ہیں۔ یہ ٹائلیں بچھائی گئی تھیں۔ یہ ٹائلیں 10 سال پہلے بھی دہلی میں تھیں۔‘‘ اس قسم کی ٹائلیں 16ویں صدی میں موجود نہیں تھیں۔ عدالت نے کہا ’’اگر کوئی مقدس شئے پائی جاتی ہے تو ہم اسے محفوظ رکھنے کی ہدایت کریں گے لیکن کسی کو بھی وہاں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘


واضح رہے کہ 2  کروڑ کی آبادی والے شہر دہلی کو سال بھر موسم کی شدت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چلچلاتی گرمی سے لے کر موسلادھار بارشوں تک اور سردی شروع ہونے سے لے کر شہر میں زہریلے دھواں کے بھرنے تک شہر کے لوگ اذیت برداشت کرتے ہیں۔ ہوا کا معیار 0 سے 500 کے پیمانے پر ماپا جاتا ہے۔ 0 سے 50 کے درمیان ہوا کا معیار اچھا سمجھا جاتا ہے جبکہ 300 سے اوپر بے حد خطرناک ہوتی ہے۔ دہلی میں ہر سال اے کیو آئی (ایئر کوالیٹی انڈیکس) 300 سے اوپر ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس سے شہر کے لوگوں میں طرح طرح کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہوا کی آلودگی سے ہر سال دنیا بھر میں 42 لاکھ لوگوں کی موت ہو جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔