’جبری مذہب کی تبدیلی ایک سنگین معاملہ‘ مرکزی حکومت کا سپریم کورٹ کو جواب
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ امن عامہ ریاست کا موضوع ہے اور اوڈیشہ، مدھیہ پردیش، گجرات سمیت کئی ریاستوں نے جبری تبدیلی پر قابو پانے کے لیے قانون پاس کیے ہیں۔
مرکزی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ مذہبی آزادی کے بنیادی حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب میں تبدیل کرنے کا حق شامل نہیں ہے۔ مرکز نے یہ بھی کہا کہ یہ یقینی طور پر کسی بھی شخص کو دھوکہ دہی، زبردستی یا لالچ کے ذریعہ مذہب تبدیل کرانے کا اختیار نہیں دیتا ہے۔ مرکز نے مزید کہا کہ وہ 'خطرات سے واقف' ہے اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس طرح کے طریقوں پر قابو پانے کے لئے قوانین ضروری ہیں۔ ان طبقات میں خواتین اور معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ افراد شامل ہیں۔
ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی کے جواب میں مرکز نے ایک مختصر حلف نامہ کے ذریعے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ درخواست میں 'دھمکیوں' اور 'تحفے اور مالی فوائد' کے ذریعے دھوکہ دہی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے ڈپٹی سکریٹری کے توسط سے داخل کردہ حلف نامہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس عرضی میں مانگی گئی ریلیف پر حکومت ہند "انتہائی سنجیدگی کے ساتھ" غور کرے گی اور وہ اس میں اٹھائے گئے مسائل کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے۔‘‘
کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا کہ یہ تبدیلی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ جبری تبدیلی کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے مرکز سے کہا کہ وہ ریاستوں سے معلومات لینے کے بعد اس معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرے۔ بنچ نے کہا، ''آپ متعلقہ ریاستوں سے ضروری معلومات جمع کرنے کے بعد ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کریں۔‘‘
بنچ نے درخواست پر سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ بنچ نے اس درخواست کو برقرار رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت بھی ملتوی کر دی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جبری تبدیلی مذہب ایک "سنگین خطرہ" اور "قومی مسئلہ" ہے اور مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کچھ ریاستوں کی طرف سے اٹھائے گئے متعلقہ اقدامات کا ذکر کیا ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ امن عامہ ریاست کا موضوع ہے اور مختلف ریاستوں - اڈیشہ، مدھیہ پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ، اتر پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک اور ہریانہ نے جبری تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون پاس کیے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔