حجاب تنازعہ: کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے تجویز کردہ ’ڈریس کوڈ‘ پر عمل کریں، کرناٹک حکومت کا فرمان

کانگریس کی رکن اسمبلی کنیز فاطمہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ’’لڑکیوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ہم حجاب کے رنگ میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں تاکہ اسے یونیفارم سے ملایا جا سکے لیکن ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے‘‘

تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @ashoswai
تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @ashoswai
user

قومی آواز بیورو

بنگلورو: اُڈوپی ضلع میں حجاب پہننے والی مسلم طالبات کو پری یونیورسٹی کلاسز میں داخل ہونے سے روکے جانے پر تنازع کے درمیان ریاستی حکومت نے ہفتہ کے روز ایک حکم جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ طالبات کو ’کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں‘ کے ذریعہ تجویز کردہ یونیفارم یا ڈریس کوڈ پر عمل کرنا ہوگا۔

’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب اُڈوپی کی چند طالبات نے حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس رومز میں داخلے سے منع کیے جانے کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ضلع کے پانچ کالجوں میں حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کو کلاس رومز میں داخلے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد زعفرانی شال پہنے ہوئے ان ہندو طالب علموں کو بھی کالج میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا، جو مسلم طالبات کے خلاف احتجاجاً ایسا کر رہے تھے۔


کرناٹک حکومت کے حکم میں کہا گیا ہے کہ کلاس رومز میں اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کر کے کچھ طلباء نے کالجوں میں ’مساوات اور اتحاد‘ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ نیز ایسے معاملات میں بھی جہاں کالج ڈولپمنٹ کمیٹیوں نے یونیفارم یا ڈریس کوڈ کا تعین نہیں کیا ہے، طلباء کو ایسے کپڑے پہننے ہوں گے جو مساوات اور اتحاد کو برقرار رکھتے ہوں اور نظم و نسق کی راہ میں حائل نہ ہوں۔

کومتی فرمان میں کہا گیا، ’’کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعہ 133 (2) کے تحت، جس میں کہا گیا ہے کہ یکساں انداز کے کپڑے لازمی طور پر پہننا ہوں گے، نجی اسکول انتظامیہ اپنی پسند کی یونیفارم منتخب کر سکتی ہیں۔‘‘ حکومت نے حال ہی میں کالجوں میں ڈریس کوڈ کے معاملے کی نگرانی کے لئے ایک ماہر کمیٹی کا اعلان کیا تھا لیکن ہفتہ کو جاری ہونے والا حکم واضح طور پر کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کی حمایت کرتا ہے۔


کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کے تحت جاری کردہ آرڈر کے آپریٹو حصے کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ حجاب پر پابندی غیر قانونی نہیں ہے۔ کیرالہ، بمبئی اور مدراس ہائی کورٹس کے تین احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومت نے اپنے حکم میں کہا کہ عدالتوں نے متعدد معاملات میں طلباء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہیڈ اسکارف نہ پہنیں یا سر ڈھانپے بغیر کلاس رومز میں آئیں، یہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ ہندوستان کا آئین، جو مذہب کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ حجاب پہننے کی وجہ سے داخلے سے انکار کرنے والی طالبات نے دعویٰ کیا کہ یہ خلاف ورزی ہے۔

دریں اثنا، پیپلز یونین آف سول لبرٹیز، کرناٹک کے صدر اروند نارائن نے کہا کہ حکومت کا یہ حکم امتیازی ہے اور اسے قانونی طور پر چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا حکم آئین کے آرٹیکل 14 اور 25 کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔

ادھر، کانگریس کی رکن اسمبلی کنیز فاطمہ اور ان کے حامیوں نے اُڈوپی حجاب معاملہ کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا، ’’لڑکیوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ امتحانات سے 2 ماہ قبل اسکولوں میں ان کے داخلے سے منع کیا جا رہا ہے، اس لیے تمام ذات اور مذہب کے لوگ ڈی سی آفس، کالبرگی میں جمع ہوئے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ہم حجاب کے رنگ میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں تاکہ اسے یونیفارم سے ملایا جا سکے لیکن ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ میں اسمبلی میں بھی حجاب پہنتی ہوں، وہ مجھے روک سکیں تو روک لیں۔ ہم وزیر اعلی کے نام ایک مکتوب روانہ کریں گے اور اس کے بعد میں اڈوپی میں احتجاج کیا جائے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔