کرناٹک انتخاب: ریزلٹ سے پہلے جے ڈی ایس میں توڑ پھوڑ کا اندیشہ، بی جے پی سے خوفزدہ دیوگوڑا نے خود سنبھالی کمان
جے ڈی ایس کی پالیسی ہے کہ اگر انتخابی نتائج میں اسے اچھی تعداد میں سیٹیں ملتی ہیں اور کانگریس اکثریت حاصل کرنے سے پیچھے رہ جاتی ہے تو جے ڈی ایس صرف وزیر اعلیٰ عہدہ پر اتحاد کے لیے تیار ہوگی۔
کرناٹک انتخاب کے بعد آئے کچھ ایگزٹ پولس میں جے ڈی ایس ’کنگ میکر‘ بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یعنی حکومت کی تشکیل میں جے ڈی ایس کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر پارٹی میں خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوف کا بھی عالم ہے۔ جے ڈی ایس کو ڈر ہے کہ کہیں کامیاب پارٹی امیدوار کی خرید و فروخت کی کوششیں نہ شروع ہو جائیں۔ بی جے پی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا نے خود ہی اپنے اراکین اسمبلی کو محفوظ رکھنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
کچھ خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ جے ڈی ایس کے کامیاب امیدواروں کو ہائی جیک یعنی اغوا ہونے سے بچانے کو لے کر پارٹی میں اندرونی سطح پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ جے ڈی ایس میں اپنے ممکنہ اراکین اسمبلی کو لے کر فکر کا یہ عالم ہے کہ خود سابق وزیر اعظم دیوگوڑا نے کمان سنبھال لی ہے اور نجی طور پر پالیسی تیرا کر رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی بھی سنگاپور سے ریاستی حالات پر باریکی سے نگاہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ ووٹنگ کے بعد سنگاپور کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان کے لیے سنگاپور سے قومی پارٹیوں کے ساتھ آزادانہ طور سے بات چیت کرنا کرناٹک کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے، جہاں ہر قدم کو میڈیا میں دکھایا جائے گا۔
کچھ ایگزٹ پولس کے مطابق جے ڈی ایس لیڈران کو انتخابی نتائج میں سیٹوں کا ایک اچھا حصہ ملنا تقریباً طے ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قومی پارٹیوں، خصوصاً کانگریس کو ضروری اکثریت حاصل حاصل نہیں ہو پائے گی۔ اگر کانگریس حکومت تشکیل دینے کے لیے ضروری 113 سے کم سیٹیں جیتتی ہے تو جے ڈی ایس صرف وزیر اعلیٰ عہدہ ملنے پر ہی اتحاد کے لیے راضی ہوگی۔ اور یہ شرط پورا ہونے پر اسے بی جے پی کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس درمیان قومی پارٹی بی جے پی سے جے ڈی ایس خوفزدہ ہے کیونکہ وہ کبھی بھی ’ہائی جیک‘ کا کھیل شروع کر سکتی ہے۔ بی جے پی نے حکومت بنانے کے لیے 2019 میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے 17 اراکین اسمبلی کو خرید لیا تھا۔ بی جے پی نے جے ڈی ایس کے اُس وقت کے ریاستی صدر ایچ وشوناتھ کو اپنے پالے میں کر لیا تھا۔ ووکالیگا طبقہ کے ایک سینئر لیڈر کے. گوپالیا بھی بی جے پی میں شامل ہو کر وزیر بنے تھے۔ کرشن راج پیٹے سیٹ سے جے ڈی ایس رکن اسمبلی رہے نارائن گوڑا بھی خرید-فروخت کے بعد بی جے پی حکومت میں وزیر بنے تھے۔
ایسے میں بی جے پی کے گزشتہ حملہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے کانگریس بھی کچھ سیٹیں کم پڑنے کی حالت میں جارحانہ منصوبہ کے ساتھ تیار ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے دیوگوڑا اور کمارسوامی نجی طور سے پارٹی کے امیدواروں کے رابطے مین ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کے ساتھ جنھوں نے بی جے پی اور کانگریس کو چھوڑ کر جے ڈی ایس میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔