فائدہ مسلم نام کا اور اسلام کو بدنام بھی کرتے ہیں ، ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے بیان پر غصہ

سید شاہد امام نے کہا کہ فرہاد کے اس بیا ن پر انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہےکیونکہ وہ پہلے بھی اپنی مذہبی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست برداری کرچکے ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اسلام اور ہندو ازم کو دہشت سے جوڑنے والے بیان پر ریاستی وزیر فرد حکیم نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا ہے جب کہ میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے جو امن کا مذہب اور تمام مذاہب کااحترام سکھاتا ہے۔

خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل ایک پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے ریاستی وزیر نے کہا کہ ہندتو اور اسلام میں تشدد ہے اور پوری دنیا ا ن دونوں کے تشدد سے پریشا ن ہے۔گاندھی جی نے اہنسا کی تعلیم بدھ ازم سے لی تھی اور بدھ ازم کی راہ پر چل کر ہی دنیامیں امن لایا جاسکتا ہے۔


ممتا بنرجی کے کابینہ کے مسلم چہرہ کے طورپر فرہاد حکیم کے اس بیان پر کلکتہ کے مسلم حلقے میں بے چینی تھی۔گرچہ کلکتہ شہر کے مشہور علمائے کرام نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے مگر سوشل میڈیا پر اس پر تبصرہ ہونے لگے تھے۔یہ معاملے دھیرے دھیرے طول پکڑرہا تھا۔

اس سے قبل کانگریس کے سینئر لیڈر سید شاہد امام نے ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فرہاد کے اس بیا ن پر انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔پہلے بھی وہ اپنی مذہبی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست برداری کرچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر فرہاد حکیم کے اس بیا ن پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا تو اس بیانیہ کوعام لوگ بھی اختیار کرلیں گے۔


کلکتہ شہر کے مشہور سماجی کارکن عبد العزیز نے فرہادحکیم نے اس بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے لیڈروں کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مسلم نام کا سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہیں مگراسلام اور مسلمانوں کو بدنام بھی کرتے ہیں۔

کلکتہ شہر کے ایک مسجد کے امام مولانا اشرف علی قاسمی نے کہا کہ فرہاد حکیم کے بیان پر مسلم علما کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔اس سے قبل سیاسی لیڈروں یاپھر عام شخصیات کے متنازع بیانات پر علمائے کرام نے سخت تیور دکھایا گیا ہے۔مگر ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود نہ علمائے کرام نے کوئی ردعمل دیا ہے اور نہ ریاستی وزیر فرہاد حکیم نے کوئی وضاحت پیش کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔