اندور میں ہوئے پتھراؤ کے بعد اقلیتوں پر ظلم کی انتہا، توڑے گئے مزید 13 گھر

معروف صحافی شاہد صدیقی نے چندن کھیڑی میں مسلمانوں کے گھر توڑے جانے پر کہا ہے کہ مدھیہ پردیش کے سی ایم شیوراج مسلم دشمنی کی مہم میں اتر پردیش کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر

نیا سال مدھیہ پردیش کے ضلع اندور واقع چندن کھیڑی گاؤں میں رہنے والے اقلیتی طبقہ کے لیے اچھا ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ ابھی گزشتہ بدھ کے روز ہی اقلیتی طبقہ کے تقریباً 15 گھروں کو غیر قانونی قبضہ بتاتے ہوئے منہدم کیا گیا تھا، اور اب تازہ ترین خبروں کے مطابق مزید 13 گھروں کو سڑک چوڑی کرنے کے نام پر جزوی طور پر منہدم کر دیا گیا ہے۔ مقامی لوگ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انتظامیہ یہ سب مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے کر رہی ہے کیونکہ 29 دسمبر کو ہندو تنظیم کی ریلی پر ہوئے پتھراؤ کا وہ غصہ نکال رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جس چندن کھیڑی میں رام مندر کا چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ہندو تنظیم نے ریلی نکالی تھی، وہ اقلیتوں کی آبادی والا علاقہ ہے۔ کچھ خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ گاؤں میں ایک مسجد کے سامنے ہندو تنظیم کے کارکنان پوجا کر رہے تھے جس سے دوسرے فرقہ کے لوگ ناراض ہو گئے۔ پھر دونوں فرقوں کے درمیان تنازعہ شروع ہو گیا جس نے پتھراؤ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد پولس نے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 درجن افراد کو گرفتار کر لیا اور کئی مکانوں کو بھی منہدم کیا گیا۔ اب اسی علاقے میں سڑک چوڑی کرنے کے نام پر کئی گھروں کو جزوی طور پر منہدم کیا گیا ہے جس سے خوف و دہشت کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ بغیر نوٹس کے ان کے گھروں کو توڑا گیا۔


جن گھروں کو سڑک چوڑی کرنے کے نام پر توڑا گیا ہے ان میں مقامی پنچایت رکن محمد رفیق کا گھر بھی شامل ہے۔ رفیق کی بیوی پروین نے انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ گھر توڑے جانے سے صرف ایک دن پہلے ضلع انتظامیہ کے کچھ افسران آئے اور انھیں گھر خالی کرنے کی ہدایت دی۔ پروین نے مزید بتایا کہ ’’میں نے پولس سے گزارش کی کہ پہلے ہی میرے شوہر کو پتھربازی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے، میں ایسے میں اپنے ٹوٹے گھر میں کیسے محفوظ رہ سکتی ہوں۔ لیکن افسروں نے ان کی باتوں کو نظرانداز کر دیا۔‘‘

مکان توڑے جانے کے تعلق سے مقامی تحصیل کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ پرتل سنہا نے بتایا کہ شروع میں صرف سڑک تعمیر کا ہی منصوبہ تھا، لیکن پرتشدد تصادم کے واقعہ کے بعد اس سڑک کو مزید چوڑی کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا اس لیے یہ کارروائی ہوئی۔ ساتھ ہی پرتل سنہا نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم نے علاقے کے باشندوں کو اپنا سامان نکالنے کے لیے مناسب وقت دیا تھا اور اس میں کسی کا نقصان بھی نہیں ہوا۔‘‘


چندن کھیڑی میں لگاتار اقلیتی طبقہ کے مکانوں کو توڑے جانے پر کئی لوگ اب سوال کھڑے کرنے لگے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مدھیہ پردیش کی شیوراج حکومت کا ’مسلم دشمن‘ چہرہ بھی ٹھہرا رہے ہیں۔ مشہور و معروف صحافی شاہد صدیقی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شیوراج چوہان اقلیتی طبقہ کے تئیں نفرت انگیز مہم میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس تعلق سے انھوں نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’سڑک چوڑی کرنے کے نام پر مسلمانوں کے 13 گھروں کو بغیر نوٹس دیئے منہدم کر دیا گیا۔ پہلے وی ایچ پی نے حملہ کیا، پھر پولس نے ظلم کیا اور اب بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں ’ایڈمنسٹریٹو دہشت گردی‘ کی ایک نئی شکل ابھر رہی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ چاندن کھیڑی گاؤں اندور شہر سے تقریباً 40 کلو میٹر دور ہے۔ اس گاؤں میں کم و بیش 400 مسلم اور قریب 15 ہندو فیملی رہتی ہیں۔ ہندو تنظیم کے کارکنان پر ہوئے پتھراؤ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور پولس فورس بھی تعینات ہے۔ 29 دسمبر کو ہوئے پتھراؤ واقعہ کے بعد مقامی تھانہ ٹی آئی رمیش چند بھاسکر کو لاپروائی کے الزام میں معطل بھی کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی سانویر ایس ڈی پی او پنکج دیکشت کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔