ایکسکلوزیو: رام دیو پر مودی حکومت مہربان، کسانوں کی جانکاری جمع کرنے کا دیا ٹھیکا، بغیر تجربہ ’ایپ‘ تیار کرے گی پتنجلی
کسان تحریک سے جڑے ایک ڈاٹا ایکٹیوسٹ نے اس معاہدہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’رام دیو کی کمپنی کو ڈاٹا ٹیکنالوجی میں تجربہ صفر ہے، پھر بھی اسے یہ کام سونپا گیا ہے۔‘‘
بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی اب کسانوں کا سارا ڈاٹا حاصل کر کے جمع کرے گی اور اسے ایک ’ایپ‘ میں اکٹھا کرے گی۔ اسمارٹ فارمنگ کے نام پر مرکز کی مودی حکومت نے ’پتنجلی‘ کو اس تعلق سے ٹھیکا دیا ہے جس سے رام دیو کی کمپنی کو کسانوں کی ڈیموگرافک جانکاریاں، ان کی زمینوں اور اس میں اگنے والی فصلوں، زمینوں کے معیار وغیرہ کا پتہ لگانے کا حق مل گیا ہے۔ ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو ملے دستاویزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکز کی وزارت زراعت اور پتنجلی کے درمیان اس سمجھوتہ پر یکم جون 2021 کو دستخط ہوئے ہیں۔
بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی آرگینک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پرائیویٹ لمیٹڈ (پوری) اور مرکزی حکومت کی وزارت برائے زراعت اور کسان فلاح کے درمیان اس معاہدہ کو کسانوں کے لیے ایک بڑا اور بہتر ایکوسسٹم بنانے کی پیش قدمی کے طور پر بتایا گیا ہے۔
ایم او یو پر ایڈیشنل زراعتی سکریٹری وویک اگروال اور پتنجلی کی کمپنی ’پوری‘ کے ہیڈ سرینواس مادبھوسی کے دستخط ہیں۔ یہ معاہدہ 23 مارچ 2023 تک برقرار رہے گا اور اس کے تحت مرکزی حکومت اور پتنجلی دونوں کو کسانوں سے متعلق سبھی جانکاریاں رازدارانہ طریقے سے شیئر کرنے کا اختیار ہوگا۔
حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو نے یکم جون کو اس معاہدہ کے مقصد کو نشان زد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کسانوں کے جمع ڈاٹا بیس سے کسانوں کو دیئے جانے والے فائدے اور مدد دستیاب کرانے میں آسانی ہوگی اور انھیں مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مختلف منصوبوں کا فائدہ مل سکے گا۔ اس کے لیے کسانوں کی مکمل جانکاری ایک ہی جگہ جمع کرنا لازمی ہے۔‘‘ یہاں غور طلب ہے کہ بابا رام دیو کی کمپنی کو ڈاٹا کلیکشن اور ڈاٹا پروسیسنگ اور اینالیسس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
کسان تحریک سے جڑے ایک ڈاٹا ایکٹیوسٹ نے اس معاہدہ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’رام دیو کی کمپنی کو ڈاٹا ٹیکنالوجی میں تجربہ صفر ہے، پھر بھی اسے یہ کام سونپا گیا ہے۔‘‘ اس ایکٹیوسٹ کا کہنا ہے کہ پتنجلی کو یہ کام صرف اس کے سیاسی روابط کی بنیاد پر ملا ہے اور اس سے مودی حکومت کے خودکفیل ہندوستان مہم کی بھی تشہیر ہوتی ہے۔
غور کرنے والی بات ہے کہ وزارت زراعت ابھی تک تقریباً 5 کروڑ کسانوں کا ڈاٹا پہلے ہی تیار کر چکا ہے۔ حکومت کے پاس وزیر اعظم کسان، سوآئل ہیلتھ کارڈ اور پی ایم فصل بیمہ یوجنا کے تحت پہلے سے کسانوں کا ڈاٹا ہے۔
ڈاٹا ایکٹیوسٹ کا کہنا ہے کہ ’’حکومت نے مائیکرو سافٹ اور امیزن جیسی کمپنیوں کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے، لیکن دیگر اسباب سے ان کمپنیوں کے ساتھ ڈاٹا شیئرنگ پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں، لیکن ڈاٹا تکنیک کے شعبہ میں ان کمپنیوں کے تجربہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ پتنجلی کے پاس تو اس شعبہ میں کوئی تجربہ ہی نہیں ہے، ایسے میں اسے یہ کام سونپا جانا شبہات پیدا کرتا ہے۔
اس معاہدہ کے سلسلے میں ’نیشنل ہیرالڈ‘ نے پوری کو کئی ای میل بھیجے اور دستیاب نمبروں پر فون کیے، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اس بارے میں بابا رام دیو کے ترجمان ایس کے تجاراوالا سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
اس سمجھوتہ پر آشا (الائنس فار سسٹینیبل اینڈ ہولسٹک ایگریکلچر) کارکن کویتا کروگانتی نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’سوال یہ نہیں ہے کہ حکومت کے پاس کسانوں کا ڈاٹا ہے اور ان کے لیے ایکوسسٹم بنایا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ آخر کسانوں کی ضرورت کیا ہے اور اس کے لیے کیا کسانوں کی حمایت بھی لی گئی ہے۔‘‘ کویتا نے اس معاہدہ کے سلسلے میں حکومت کے سامنے ایک تفصیلی پریزنٹیشن بھی بھیجا ہے۔ کویتا کا کہنا ہے کہ ’’آخر پتنجلی آرٹیفیشیل انٹلیجنس کے بارے میں جانتی ہی کیا ہے؟‘‘
کویتا نے اس معاہدے کو رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پورا عمل ہی غلط ہے۔ جب بھی حکومت ایسا کچھ کرتی ہے تو کچھ سائنسی ٹول استعمال کرنے لگتی ہے، اور اسے لگتا ہے کہ کسانوں کو اس کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں سوال کسانوں کی اپنی ضرورت کا ہے جس کے بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔