ہاتھیوں کے ساتھ تصادم میں ہر سال جاتی ہے 500 لوگوں کی جان!
ہاتھیوں کے رہنے والے علاقوں میں انسانی آبادی کے بس جانے سے ملک میں ہاتھیوں اور انسانوں کے درمیان تصادم کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور ہر سال تقریباً 500 افراد کو اس میں اپنی جان گنوانی پڑتی ہے
گاندھی نگر: ہاتھیوں کے رہنے والے علاقوں میں انسانی آبادی کے بس جانے سے ملک میں ہاتھیوں اور انسانوں کے درمیان جدو جہد بڑھتی جا رہا ہی ہے اور ہر سال تقریباً 500 افراد کو اس میں اپنی جان گنوانی پڑتی ہے۔ ’انٹرنیشنل یونین فار كنزرویشن آف نیچر‘ (آئی یو سی این) میں ایشیائی ہاتھیوں کے ماہر سندیپ کمار تواری نے بتایا کہ ہاتھی ایک ایسا جانور ہے جسے ایک جگہ رک کر رہنا پسند نہیں ہے. وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا رہتا ہے۔ بڑھتی انسانی آبادی کے ساتھ ہاتھیوں کے رہنے کا علاقہ بھی سكڑتا جا رہا ہے۔
گزشتہ 10 سال میں ہاتھیوں کے رہنے کیلئے بنائے گئے سات کوریڈور بھی ختم ہو گئے ہیں اور اس علاقے کا رقبہ سکڑنے کے ساتھ ہی ان کے درمیان میں انسانوں کے بس جانے سے یہ علاقے منقسم ہوگئے ہیں۔ اس سے انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان جدوجہد بڑھ گئی ہے۔ ہاتھیوں کے رہنے کے جو علاقے بچے ہیں وہ بھی سکڑتے جا رہے ہیں کیونکہ انسانی آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی رہائش ، کاشتکاری اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے جگہ چاہیے ہوتی ہے۔
تواری نے بتایا کہ ملک میں ہر سال 500 لوگوں کو اس جدوجہد کی وجہ سے جان گنوانی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر سال 100 ہاتھی، انسانی وجوہات سے مر جاتے ہیں۔ انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان جدوجہد کے واقعات ان علاقوں میں زیادہ پائے گئے ہیں جہاں ہم انہیں گھومنے پھرنے اور رہنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اڑیسہ، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے جنوبی علاقوں میں یہ واقعات زیادہ ہیں۔
ان علاقوں میں کان کنی کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہاتھیوں کے رہنے کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ ملک میں ہاتھیوں کی کل تعداد کا صرف 10 فیصد ان علاقوں میں ہے، لیکن انسان اور ہاتھیوں کے درمیان جدوجہد کے 40 فیصد واقعات انہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہاتھیوں کو رہنے ،گھومنے پھرنے کیلئے راستہ دینا ہی حل ہے۔
ماحولیات کی وزارت میں جنگلات کے انسپکٹر جنرل و ’پروجیکٹ ا یلیفینٹس ‘نے بتایا کہ ہندوستان کی مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں سے ہاتھی سرحد پار کرکے نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور میانمار تک چلے جاتے ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ 40 ایسے راستے ہیں جہاں سے ہاتھی گزرتے ہیں۔اسلئےسر حد کے آر پار ہاتھیوں کی آمد و رفت کے لئے ان ممالک کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ جلد ہی اس سلسلہ میں سمجھوتہ ہونے کی امید ہے۔ بھوٹان کے ساتھ بھی بات چل رہی ہے۔
دنیا کے 13 ممالک میں اس وقت تقریبا 50 ہزار ایشیائی ہاتھی ہیں۔ ان میں تقریباً 30 ہزار ہندوستان میں ہیں۔ سال 2017 کی گنتی میں ان کی تعداد 29،964 پائی گئی تھی۔ تواری نے بتایا کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ لوگوں کو ہاتھیوں کے تئیں حساس بنایا جائے۔ ملک میں کئی جگہ، جہاں عام طور پر ہاتھی آبادی میں آتے رہتے ہیں، مقامی لوگوں کی ٹیم بنائی گئی ہے۔
’بی بی سی‘،’ ڈسکوری‘ اور ’نیشنل جيوگرافك‘ کے لئے جنگلات کے فروغ و ترقیات پر متعدد ڈاکیومنٹری بنانے والے معروف بایولوجسٹ اور پرو ٹیکشنسٹ ایان ریڈمنڈ نے بتایا کہ ہاتھی جنگل کے تحفظ و و فروغ کے لئے کافی اہم جانور ہے۔ ہاتھی ایک جگہ سے کھانا لیتا ہے اور جس راستہ سے جاتا ہے اسے زرخیز بناتا ہوا جاتا ہے۔ ہاتھی کا فضلہ اچھا قدرتی کھاد ہے۔ واپس آتے وقت وہ اسی عمل کو دہراتا ہے اور واپسی کے راستہ کو بھی زرخیز بناتا ہوا جاتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔