’جوڑے بالغ ہیں تو ساتھ رہنے سے والدین نہیں روک سکتے‘، لیو-اِن-رلیشن شپ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بالغ جوڑے کو اپنی پسند کے ساتھ رہنے یا پھر شادی کرنے کی پوری آزادی ہے، بالغ جوڑوں کے ان حقوق میں مداخلت آرٹیکل 19 اور 21 کی خلاف ورزی مانی جائے گی۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بالغ جوڑوں سے جڑے ایک معاملے میں اہم فیصلہ صادر کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بالغ جوڑوں کو ساتھ رہنے سے ان کے والدین بھی نہیں روک سکتے۔ بالغ جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے کی پوری آزادی ہے۔ والدین بالغ جوڑوں کی زندگی میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی بالغ جوڑا لیو-اِن-رلیشن شپ میں رہ رہا ہے اور اسے کوئی دھمکی دیتا ہے یا پریشان کرتا ہے تو انھیں تحفظ مہیا کرانے کی ذمہ داری پولیس کمشنر کی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں : آدتیہ ایل ون نے لی سیلفی، زمین اور چاند کی تصویر بھی کلک کی
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بالغ جوڑے کو اپنی پسند سے ساتھ رہنے یا پھر شادی کرنے کی پوری آزادی ہے۔ عدالت نے کہا کہ بالغ جوڑوں کے ان حقوق میں مداخلت آرٹیکل 19 اور 21 کی خلاف ورزی مانا جائے گا۔ جسٹس سریندر سنگھ کی سنگل بنچ نے یہ حکم گوتم بدھ نگر کی رضیہ اور دیگر کی عرضی پر فیصلہ سنانے کے دوران دیا۔
ہائی کورٹ میں عرضی دہندہ نے کہا کہ دونوں ہی بالغ ہیں۔ اپنی مرضی سے لیو-ان رلیشن شپ میں رہ رہے ہیں۔ مستقبل میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے والدین یا فیملی کے لوگ ناراض ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسا اندیشہ ہے کہ اس کی آنر کلنگ کی جا سکتی ہے۔ 4 اگست 2023 کو پولیس کمشنر سے اس بات کی شکایت کی گئی تھی۔ جب پولیس کمشنر سے سیکورٹی نہیں ملی اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو ہائی کورٹ کی پناہ لی۔ عرضیوں کے خلاف ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
دوسری طرف سرکاری وکیل نے کہا کہ دونوں ہی جوڑے الگ مذاہب کے ہیں۔ اسلام میں لیو-اِن رلیشن شپ میں رہنا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس پر ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ذات پات کا نظام ملک کے لیے ایک بد دعا ہے اور اسے جتنی جلد ختم کیا جائے اتنا بہتر ہے۔ بین المذاہب شادی دراصل ملکی مفاد میں ہے کیونکہ اس کے نتیجہ کار فرقہ واریت پر مبنی نظام تباہ ہو جائے گا۔ کسی بھی بالغ جوڑے کو اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کا حق ہے۔ بھلے ہی اس کی ذات اور مذہب مختلف کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی پریشان کرے، یا تشدد کرے تو پولیس اس پر کارروائی کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔