’یکساں کام، یکساں تنخواہ، پورا انصاف‘، راہل گاندھی نے شیئر کی ڈی ٹی سی بس میں سفر کی ویڈیو

راہل گاندھی کے ساتھ بات چیت میں ایک ڈی ٹی سی اسٹاف نے بتایا کہ ہمیں ایک دن کے تقریباً 816 روپے ملتے ہیں، اس میں پی ایف سمیت دیگر کٹوتیاں بھی ہوتی ہیں، مہینے میں کوئی آرام بھی نہیں ملتا۔

<div class="paragraphs"><p>بس کی سواری کے دوران کنڈکٹر سے اس کے مسائل دریافت کرتے ہوئے راہل گاندھی</p></div>

بس کی سواری کے دوران کنڈکٹر سے اس کے مسائل دریافت کرتے ہوئے راہل گاندھی

user

قومی آواز بیورو

لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں ڈی ٹی سی بس کا سفر کیا تھا اور بس ڈرائیور، کنڈکٹر و مارشل سے لے کر ڈی ٹی سی سے منسلک کئی ملازمین سے بات چیت کی تھی۔ انھوں سبھی سے ان کے مسائل دریافت کیے تھے اور یہ بھی پوچھا تھا کہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اب راہل گاندھی نے بس کے اس سفر اور ڈی ٹی سی ملازمین سے سے ہوئی بات چیت کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں کچھ حیرت انگیز انکشافات بھی ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک اسٹاف نے بتایا کہ انھیں 5-6 ماہ سے تنخواہ ہی نہیں ملی ہے۔

راہل گاندھی کی یہ ویڈیو تقریباً ساڑھے سات منٹ کی ہے جس میں وہ ڈی ٹی سی کے الگ الگ ملازمین سے بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس لیڈر دہلی کی عآپ حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے بس اسٹاف کے مسائل سامنے رکھے اور کہا کہ ڈرائیورس و کنڈکٹرس غیر یقینی والی حالت میں زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ مسافروں کی سیکورٹی میں مستقل تعینات ہوم گارڈس کو چھ ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی ہے۔


راہل گاندھ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک ڈی ٹی سی اسٹاف نے بتایا کہ ایک دن کے انھیں تقریباً 816 روپے ملتے ہیں۔ اس میں پی ایف سمیت دیگر کٹوتیاں بھی ہوتی ہیں۔ مہینے میں کوئی آرام نہ ملنے کی شکایت بھی اس اسٹاف نے کی۔ اس کا کہنا ہے کہ تہواروں کی بھی چھٹیاں نصیب نہیں ہوتیں۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر ہم کوئی چھٹی لیتے ہیں تو پیسے کاٹے جاتے ہیں۔‘‘ ایک ڈرائیور نے بتایا کہ کلومیٹر کے حساب سے تنخواہ طے ہوتی ہے۔ آٹھ گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے، اور کئی بار ایک دو گھنٹے زیادہ بھی ہو جاتے ہیں۔

راہل گاندھی نے جب ایک ڈی ٹی سی ملازم سے سوال کیا کہ ’ہم آپ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟‘ تو جواب ملا کہ ’’ہمیں پانچ مہینے سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ گھر کا کرایہ کس طرح دیں اور کس طرح فیملی کی پرورش کریں؟ بچوں کی پڑھائی نہیں ہو پا رہی۔ بسیں بھی ٹھیک طرح سے نہیں چل رہی ہیں۔ ریاستی حکومت اکثر مرکز کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے، اور مرکزی حکومت بھی ریاستی مسئلہ بتا کر اپنا پلّہ جھاڑ لیتی ہے۔ فنڈ ریلیز نہیں ہونے کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے۔ اب دو ماہ انتظار کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ ہمیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس لیڈر کے پاس جانا ہو چلے جائیے، کچھ نہیں ہو سکتا۔ اکتوبر سے پہلے تنخواہ نہیں ملنے کی بات کہی جا رہے ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے، اور اب نئی بھرتی کرنے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔‘‘


کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ایک بس کنڈکٹر نے کہا کہ ’’ہمارا ہر سال کانٹریکٹ رینیو ہوتا ہے۔ اگر ڈیوٹی کم ہوتی ہے تو کانٹریکٹ رینیو نہیں کیا جاتا ہے۔ گھر بیٹھنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے۔ ہمیں مستقل کیا جانا چاہیے۔ یکساں تنخواہ اور یکساں کام ہونا چاہیے۔ یہی ہمارا مطالبہ ہے۔ ایک ہوم گارڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا سوال یہ ہے شہریت پکی ہے تو نوکری پکی کیوں نہیں ہے؟ نجکاری بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ اس سے ہمارے بچوں کا کیا مستقبل رہے گا؟‘‘

اس دوران راہل گاندھی نے ایک ڈی ٹی سی اسٹاف سے پوچھا کہ پرائیویٹائزیشن کا فائدہ کسے مل رہا ہے؟ اس پر جواب ملا کہ ’’اس سے صنعت کاروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہر کوئی بولنا چاہتا ہے، لیکن لوگوں کو اپنی بات رکھنے میں ڈر لگتا ہے۔‘‘ پھر راہل نے سوال کیا کہ کیا آپ لوگ پیسے بچا پاتے ہیں؟ جواب ملا کہ ’’بالکل نہیں۔‘‘ ملازمین کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک سال کا کانٹریکٹ ہوتا ہے۔ ہمیں کبھی بھی نکال دیے جانے کا خوف بنا رہتا ہے۔


بہرحال، راہل گاندھی نے ڈی ٹی سی سفر اور ملازمین سے ہوئی بات چیت کی ویڈیو شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ الفاظ بھی تحریر کی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’کچھ دنوں پہلے دہلی میں ایک خوش کن بس سفر کے تجربہ کے ساتھ ڈی ٹی سی ملازمین سے بات کر کے ان کی معمولات اور مسائل کی جانکاری لی۔ نہ سماجی سیکورٹی، نہ مستحکم اامدنی اور نہ ہی کوئی مستقل ملازمت۔ کانٹریکچوئل مزدوری نے ایک بڑی ذمہ داری کے کام کو مجبوری کے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں ڈرائیورس اور کنڈکٹرس غیر یقینی کی تاریکی میں جینے پر مجبور ہیں۔ وہیں مسافروں کی سیکورٹی میں مستقل تعینات ہوم گارڈس چھ ماہ سے بغیر تنخواہ کے ہیں۔ اس بے توجہی سے پریشان ملک بھر کے سرکاری ملازمین کی طرح ڈی ٹی سی ورکرس بھی لگاتار نجکاری کے خوف کے سایہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کو چلاتے ہیں، روزانہ لاکھوں مسافروں کو آسان بناتے ہیں۔ لیکن قربانی کے بدلے انھیں کچھ ملا ہے تو صرف ناانصافی۔ مطالبات واضح ہیں- یکساں کام، یکساں تنخواہ، پورا انصاف۔ وہ بھاری دل اور غمزدہ ہو کر حکومت سے پوچھ رہے ہیں، ہم شہری پختہ ہیں تو ملازمت ناپختہ کیوں؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔