عید الاضحیٰ: ’گھروں اور کھلے میں قربانی پر پابندی!‘ خبر وائرل ہونے کے بعد مسلمانوں میں بے چینی

مفتی مکرم احمد نے کہا ’’حکومت ہند سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملہ میں واضح رہنما ہدایات جاری کرے۔ حکومت کو کہنا چاہئے کہ جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے مسلمان قربانی کرتے آئے ہیں ویسے ہی کرتے رہیں‘‘

فائل تصویر یو این آئی
فائل تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: قربانی کے حوالہ سے ایک ہندی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے سبب مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ خبر کے مطابق حکومت نے عید الاضحیٰ کے موقع پر گھروں اور کھلے میں جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کر دی ہے اور قربانی صرف اور صرف مذبح خانہ میں ہی کی جا سکے گی۔ یہ خبر ہندو روزنامہ ’دینک بھاسکر‘ میں شائع ہوئی ہے اور یہ تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔

عید الاضحٰ اور قربانی کے تعلق سے جب مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جو جواب دیا اس نے صورت حال کو صاف کرنے کے بجائے مزید الجھا دیا ہے۔ مختار عباس نے کہا کہ قربانی کے تعلق سے جس طرح کے فرمان کی بات کی جا رہی ہے ویسا فرمان مرکزی حکومت جاری نہیں کرتی، ہاں اگر ریاستی حکومت جاری کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔


دریں اثنا، دہلی کی فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس معاملہ میں صورت حال کو واضح کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگر کھلے میں یا گھروں میں قربانی پر پابندی عائد کی ہے تو اس سے مسلمانوں کو اپنے واجب عمل (قربانی) کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مختار عباس نقوی کے بیان پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صرف یہ کہا کہ ایسا فرمان مرکزی حکومت جاری نہیں کرتی اور ریاستی حکومت کر سکتی ہے۔ یعنی مختار عباس نے ریاستوں کو یہ آزادی دے دی کہ وہ اگر ایسا فرمان جاری کرنا چاہیں تو کر لیں!


مفتی مکرم احمد نے کہا ’’حکومت ہند سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملہ میں واضح رہنما ہدایات جاری کرے۔ حکومت کو کہنا چاہئے کہ جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے مسلمان قربانی کرتے آئے ہیں ویسے ہی کرتے رہیں۔ مختار عباس صاحب سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ بھی حکومت سے اس معاملہ میں واضح ہدایات جاری کرائیں۔ یہ مسئلہ چھوٹا نہیں ہے، پورے ہندوستان کا مسئلہ ہے۔ پورے ہندوستان میں 20 کروڑ مسلمانوں کے مذہبی فرائض کا مسئلہ ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jun 2022, 10:03 PM