ملک کی معیشت چوپٹ، جلد سدھار ناممکن

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کم از کم اس سال تو اس کے سدھرنے کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے ہیں۔ اگر ضروری اقدام کیے گئے تو بھی آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی سے قبل معیشت کی رفتار میں سدھار آنا ممکن نہیں ہے۔ اس کا اندازہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے جو ابھی حال میں ہی منظر عام پر آئی ہے۔ ملک کی معیشت کی نبض ٹٹولنے کے لیے ملک کا سب سے بڑا سرکاری بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) ’ایکوریپ‘ نامی تجزیہ کراتا ہے اور اس تجزیہ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے معیشت میں سستی کا اندیشہ تو تھا ہی لیکن شرح ترقی میں اس قدر ’تیز گراوٹ‘ کی امید کسی نے نہیں کی تھی۔ جیسی کے اب نظر آرہی ہے۔

ایس بی آئی رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی گروتھ ریٹ یعنی شرح ترقی میں جو گراوٹ کا رخ ہے وہ محض وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ شرح ترقی میں کمزوری کو صرف کچھ دن کی بات کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ یہ پورے معاشی ڈھانچہ میں ہوئے اتھل پتھل کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الگ الگ اسباب اور وجوہات کو مدنظر رکھا جائے تو شرح ترقی میں تیزی آئندہ سہ ماہی میں بھی آنے والی نہیں ہے۔ حالات اگر بہتر رہے تو آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی اپریل-جون 2018 میں شاید کچھ بہتری دیکھنے کو مل جائے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابھی کچھ دن قبل شرح ترقی کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اس کے مطابق ملک کی ترقی کی رفتار محض 5.7 فیصد رہ گئی ہے جو کہ گزشتہ تین سال کی سب سے سست رفتار ہے۔ رپورٹ سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ نوٹ بندی کے سبب پریشانی میں مبتلا ہو چکے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر جب جی ایس ٹی کا بوجھ پڑا تو وہ برداشت نہیں کر سکا اور مارکیٹ میں ایک غیر یقینی ماحول پیدا ہو گیا جس سے معیشت پر منفی اثر پڑا۔

ایس بی آئی کی اس رپورٹ میں کئی پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے۔ رپورٹ میں جی ایس ٹی کے منفی اثر کو خصوصی طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ یعنی رپورٹ کا بڑا فوکس مارکیٹ میں جی ایس ٹی سےپیدا ہونے والی الجھن پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق جی ایس ٹی نافذ ہونے سے قبل ہی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پہلے سے ہی تیار پڑے مال کو باہر نکالناشروع ہو چکا تھا، کیونکہ نوٹ بندی کی مار کے سبب مزدوروں، خام مال، ڈھلائی وغیرہ کے مسائل کے سبب کارخانے پہلے سےہی خاموش پڑے تھے۔ حال ہی میں آئے جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں اس بات کا تذکرہ تھا۔ لیکن صارفین اور سرمایہ کار پر مبنی سیکٹر میں نوٹ بندی کے سبب پہلے سے تیار شدہ مال کو باہر نکالنے کا چلن تو گزشتہ مالی سال یعنی 2016-17 میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ یعنی جی ایس ٹی لاگو ہونے سے قبل ہی کمپنیاں تیار شدہ مال ختم کر رہی تھیں اور نیا مال بنانے سے گریز کر رہی تھیں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کا یہ رخ خصوصی طور پر گزشتہ مالی سال کی آخری دو سہ ماہیوں میں دیکھنے کو ملا تھا۔ یہ وہ دو سہ ماہیاں تھیں جن میں 8 نومبر 2016 کو نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور نقد کے لیے پورا ملک بینکوں کے باہر قطاروں میں نظر آ رہا تھا۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا

ایس بی آئی کی ’ایکو ریپ‘ رپورٹ میں 1695 ایسی کمپنیوں کے اعداد و شمار کو بنیاد بنایا گیا ہے جو شیئر بازار سے منسلک ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ 2016-17 میں پہلے سے ہی معیشت میں سستی تھی، لیکن نوٹ بندی کے اعلان نے اس سستی میں اوربھی بریک لگانے کا کام کیا۔ رپورٹ کے مطابق 2016-17 کے غیر یقینی کے ماحول سے سرمایہ کاری پر مبنی سیکٹر پر منفی اثر پڑا اور صارفین پر مبنی سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہوا۔

اس رپورٹ میں 2306 کمپنیوں کا ایک اور تجزیہ ہے جس کے نتائج بتاتے ہیں کہ اس مالی سال کی سہ ماہی شرح سہ ماہی بنیاد پر 69 میں سے 40 سیکٹر میں کمزور نظر آئی ہے۔ ان کمپنیوں کی فروخت میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال 2016-17 کے مقابلے بے حد کم ہے۔

رپورٹ میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کے کیپٹل گڈس، کنزیومر گڈس اور انجینئرنگ گڈس کی کارکردگی بے حد خراب درج کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ان حالات کو بے انتہا تشویش کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ان سارے اسباب و دلائل کو ملا کر رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آئندہ سہ ماہی میں بھی معیشت کے سدھرنے کی امید نہیں ہے۔ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں حالات کچھ بہتر ضرور ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس وقت تک حکومت یہ قبول کر لے کہ ہر اس سیکٹر کی حالت خراب ہے جس سے شرح ترقی میں تیزی آتی ہے اور جس سے ملک کی ترقی کو رفتار ملتی ہے۔

ایس بی آئی نے اس سے قبل بھی یکم ستمبر کو جاری اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس سال کی دوسری سہ ماہی کے اعداد و شمار بھی خوش کن نہیں ہوں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق زراعتی شعبہ میں نوٹ بندی کا زبردست اثر ہوا ہے اور اس کے سبب جی ڈی پی میں 17 فیصد کا تعاون دینے والے اس سیکٹر میں بہتری کے آثار نہیں ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دیہی علاقوں میں لوگوں نے خریداری بے حد کم کر دی ہے جس کے سبب سامان اور مال کی طلب میں بھی گراوٹ درج کی گئی ہے۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جانب مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی جی ڈی پی کی شرح میں گراوٹ کے رخ کو تشویشناک بتاتے ہیں، وہیں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے اسے محض ’’تکنیکی سبب‘‘ قرار دیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، امت شاہ تو جی ڈی پی ناپنے کے طریقے کو ہی بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ گزشتہ سنیچر کو فکی میں صنعت کاروں سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ ’’مودی حکومت نے جی ڈی پی دیکھنے کے نظریے کو ہی بدل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی کو صرف پروڈکشن، سروسز اور انفراسٹرکچر کے طور پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ زندگی کی سطح میں کتنی بہتری ہوئی ہے۔‘‘

لیکن سابق وزیر مالیات اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم جی ڈی پی میں گراوٹ کو خطرے کی گھنٹی تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی ’پوری طرح سے ناکام‘ تجربہ تھا۔ انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مشکلیں بڑھیں گی۔ چدمبرم نے یہ بھی کہا کہ آنے والی سہ ماہیوں میں مزید گراوٹ درج کی جاتی ہے تو انھیں اس پر کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ مودی بھلے ہی نوٹ بندی کو ایک جرأت مندانہ فیصلہ بتاتے ہوں لیکن اصل بحث اس غلطی سے ہوئے نقصان کی ذمہ داری لینا ہے۔ انھوں نے جلد بازی میں نافذ کیے گئے جی ایس ٹی کو بھی ایک غلط فیصلہ ٹھہرایا۔ چدمبرم کا کہنا ہے کہ یہ وہ جی ایس ٹی نہیں ہے جسے ماہرین معاشیات سمجھ پائیں، کیونکہ اسےبغیر کسی تیاری کےہی نافذ کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Sep 2017, 7:32 PM