کشمیر میں زندگی کا ہر شعبہ غیر یقینیت کی نذر ہوچکا ہے: نیشنل کانفرنس
ڈاکٹر کمال نے کہا کہ ہند و پاک میں روابط کے فقدان سے نہ صرف وادی کے حالات دگرگوں ہیں بلکہ سرحدیں بھی جل رہی ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان میں مذاکراتی عمل جاری رہتا تو موجودہ خراب صورتحال نہیں ہوتی۔
سری نگر: نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال نے کہا کہ وادی کشمیر میں زندگی کا ہر شعبہ غیر یقینیت کی نذر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 4 سال کے دوران ریاست جموں وکشمیر کو ہر لحاظ سے اندھیروں میں دھکیلا گیا۔ ان باتوں کا اظہار مصطفی کمال نے جمعرات کو اپنی رہائش گاہ پر پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے ساتھ تبالہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا 'وادی کو پی ڈی پی اور بھاجپا کی سابق مخلوط حکومت کے قیام کے بعد حالات کی ابتری، بے چینی، افراتفری، ماردھارڈ، فرقہ پرستی، خوف و دہشت، کارپشن، بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی کے سوا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں کے عوام نے ان ایام میں جو مصائب، مظالم اور مشکلات جھیلے ہیں اُن کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی'۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کے خراب حالات سے سیاحت، کاروبار، تجارت، تعلیم، روزگار، عام زندگی نیز ہر شعبہ غیر یقینیت کی نذر ہوگیا ہے۔ ریاست خصوصاً وادی کے عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر کمال نے کہا کہ ریاست میں امن و امان لوٹانے کے لئے بے انتہا کام کیا گیا تھا لیکن سابق پی ڈی پی بھاجپا حکومت کی غلط پالیسیوں نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا اور ہم ایک بار پھر وہیں پر کھڑے ہیں جہاں اندھیروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل اور ہند و پاک کی مضبوط دوستی کو ریاست اور خطے میں امن و امان کی ضمانت قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری نے حکومت ہند پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت شروع کریں تاکہ ریاست کے عوام کو دیر پا امن اور چین کی زندگی نصیب ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہند و پاک میں روابط کے فقدان سے نہ صرف وادی کے حالات دگرگوں ہیں بلکہ سرحدیں بھی جل رہی ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان میں مذاکراتی عمل جاری رہتا تو موجودہ خراب صورتحال نہیں ہوتی اور آر پار کشمیری عتاب کے شکار نہ ہوتے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اپنے اٹانومی کی بحالی کے ایجنڈا اور پالیسی پر قائم ہے اور یہی ایک ایسا حل ہے جو سب کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہندوستان واقعی جموں وکشمیر اور خطے میں دیرپا امن اور شانتی کی متمی ہے تو نئی دلی کو دفعہ 370 کی مکمل بحالی، 1953 سے پہلے کی پوزیشن اور دہلی اگریمنٹ کو بحال کرنا ہوگا اور ساتھ ہی جموں و کشمیر کی 9 ویں اسمبلی کی طرف سے 1999میں منظور شدہ قرار اٹانومی کو قبول کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور ہمارا یہی موقف ہے کہ اگر اٹانومی سے بہتر کوئی ایسا حل ہے جو یہاں کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمان کرتا ہے تو ہم اس کو قبول کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔