دیال سنگھ ایوننگ کالج کانام اب’وندے ماترم کالج‘!
دہلی یونیورسٹی کے تاریخی ’دیال سنگھ ایوننگ کالج‘ کا نام بدل کر ’وندے ماترم کالج‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اس تعلق سے گورننگ باڈی کی جمعہ کے روز ہوئی میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا اور نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ یہ قدم ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے لیے پرعزم لوگوں کی منزل کی جانب ایک اور قدم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ شہروں، ریلوے اسٹیشنوں اور کالجوں کو ’ہندو‘ نام دے کر تاریخ کو بدلنے کی ان کی کوششیں لگاتار آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن اس قدم سے جمہوری سوچ رکھنے والے لوگ پریشان ہیں، اس کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جب دیال سنگھ ایوننگ کالج کی گورننگ باڈی کی میٹنگ چل رہی تھی اور نام بدلنے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تو میٹنگ ہال کے باہر کئی طلبا اور اساتذہ نے اس کی مخالفت میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ لیکن گورننگ باڈی کے چیئرمین اور بی جے پی کے رہنام امیتابھ سنہانے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اس کو منظوری کے لیے دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس بھیج دیا۔
دیال سنگھ ایوننگ کالج کا نام تبدیل کیے جانے کی خبر سے دہلی یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ دیگر یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے طلبامیں بھی ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے خان رضوان اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے آفتاب احمد نے اس عمل کو ’بھگوا سیاست‘ کا نتیجہ قرار دیا۔ خان رضوان نے اس سلسلے میں ’قومی آواز‘سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’آر ایس ایس کے لوگوں نے منصوبہ بند طریقے سے ہر جگہ اعلیٰ عہدوں پر اپنے لوگوں کو فائز کر دیا ہے اور اب یکے بعد دیگرے اپنی منزل کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’دیال سنگھ ایوننگ کالج کا نام ’’وندے ماترم کالج‘ رکھ کر ہندوستان کو وہ کوئی تحفہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ اپنے لیے 2019 کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ’وندے ماترم‘ کا وِرد کرنا مسلمان پسند نہیں کرتے ہیں اس لیے یہ قدم اٹھا کر وہ محض ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور ملک کی جمہوری فضا کو زہر آلود کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
1958 سے ایوننگ کالج کی شکل میں اپنی خدمات انجام دے رہے دیال سنگھ ایوننگ کالج کا نام بدلے جانے کے بعد پیدا تنازعہ سے متعلق آفتاب احمد نے کہا کہ ’’اس کالج کی ایک تاریخ ہے اس لیے شفٹ بدلنے کے باوجود اس کا نام بدلنے کی ضرورت نہیں تھی، اور اگر نام بدلنا ہی تھا تو ’وندے ماترم کالج‘ ہی کیوں؟ یہ نام صرف اقلیتی طبقہ کو مشتعل کرنے اور ان کا منھ چڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے۔‘‘ دہلی یونیورسٹی میں ایم فل کر رہے ذیشان امجد نے اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ سے کہا کہ ’’ملک میں فسطائیت اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس کے شکنجے میں تعلیمی ادارے بھی پھنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ دیال سنگھ ایوننگ کالج کا نام بدلنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کیا دیال سنگھ کی شخصیت پر کوئی داغ ہے کہ ان کے نام سے منسوب کالج کو ’وندے ماترم‘ کا نام دے دیا جائے؟ دراصل ڈی یو، جے این یو، بی ایچ یو اور حیدر آباد یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں ماحول بدل رہا ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔‘‘
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس دیال سنگھ کالج کا نام بدل کر ایک خاص ذہنیت سے جوڑا جا رہا ہے وہ سیکولر اقدار کو مدنظر رکھ کر قائم کیا گیا تھا۔ دراصل دیال سنگھ مجیٹھیا، جو کہ ’دی ٹریبیون‘ اور ’پنجاب نیشنل بینک‘ کے بانی تھے، انھوں نے اپنی زمین 1895 میں ایجوکیشنل ٹرسٹ کو وقف کر دی تھی تاکہ ایک ’سیکولر کالج‘ قائم کیا جا سکے۔ اس کے بعد 1910 میں لاہور میں دیال سنگھ کالج کا قیام عمل میں آیا۔ تقسیم ہند کے بعد دیال سنگھ کالج کرنال اور دہلی میں قائم کیا گیا اور 1959 میں اس کا انتظام و انصرام دہلی یونیورسٹی کے ذمہ ہوا۔
بہر حال، اس پورے معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امیتابھ سنہا سے جب کالج کا نام بدلنے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ 16 لوگوں کی میٹنگ میں سبھی کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لیا گیا۔ لیکن گورننگ باڈی کے رکن اور اس کالج میں انگریزی کے استاذ وراج کافلے نے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں تحریری رد عمل دینے کی بھی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ یہ وقت کالج کا نام بدلنے کا نہیں ہے بلکہ یہاں پیدا شدہ بے شمار مسائل کا حل نکالنے کا ہے، لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ دیال سنگھ ایوننگ کالج اور دیال سنگھ مارننگ کالج کا انتظام و انصرام مشترکہ رہا ہے لیکن رواں سال کے آغاز میں ہی دونوں کو علیحدہ کرنےسے متعلق فیصلہ لے لیا گیا تھا اور ایوننگ کالج کے پرنسپل پون شرما کو 21 ستمبر کو باضابطہ اس سلسلے میں جانکاری دے دی گئی تھی۔ کالج کو شام کی جگہ صبح کے وقت میں شفٹ بھی کر دیا گیا ہے جس سے ایوننگ کے طلبا اور اساتذہ پہلے سے ہی پریشان ہیں اور کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مارننگ اور ایوننگ کالج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے دہلی یونیورسٹی نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے، لیکن یہاں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ پہلے ہی کالج میں وسائل کی کمی تھی اور اب الگ الگ انتظام ہونے پر مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ اساتذہ نے اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی لیکن اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Nov 2017, 6:17 PM