جوہر یونیورسٹی میں کھدائی کے دوران مشینیں برآمد، اعظم خان کی مشکلات میں مزید اضافہ
رامپور پولیس کے ذریعہ جوہر یونیورسٹی میں ایک تلاشی کے دوران اُن کتابوں کا ذخیرہ ملنے کی بات کہی جا رہی ہے جو مدرسہ عالیہ سے غائب ہوئی تھیں، ان کی چوری کا الزام اعظم خان پر لگا تھا۔
رامپور: اعظم خان ایماندار ہیں یا بدعنوان یہ ان کے خلاف عدالتوں میں چل رہے مقدموں کا فیصلہ آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، لیکن اس وقت ایک کے بعد ایک ان کے خلاف جو رامپور ضلع و پولیس کے افسران کی کارروائی چل رہی ہے، اس نے اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کی مشکلوں میں اضافہ ضرور کر دیا ہے۔ دو دن قبل پولیس کو یونیورسٹی میں کھدائی کے دوران مبینہ طور پر وہ مشینیں زمین میں دبی ملیں جو شہر کی صفائی کے نام پر سرکاری روپے سے خریدی گئیں تھیں اور ان کا استعمال ذاتی یونیورسٹی میں کیا گیا۔ سماج وادی پارٹی لیڈر اعظم خان پر یہ بھی الزام ہے کہ صوبہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جب یہ مشینیں تلاشی گئیں تو اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے خود اعظم خان نے ان مشینوں کو مٹی کے ڈھیر میں دفن کر دیا۔
رامپور پولیس کی اعظم خان کے خلاف کارروائی یہیں نہیں رکی بلکہ یونیورسٹی میں ایک اور تلاشی کے دوران اُن کتابوں کا ذخیرہ بھی سامنے آنے کی بات کہی جا رہی ہے جو مدرسہ عالیہ سے غائب ہوئی تھیں۔ ان کی چوری کا الزام بھی اعظم خان پر لگا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ کتابوں کے اس قیمتی ذخیرے کو رامپور نواب نے جمع کیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے بڑی رقم خرچ کی تھی۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ یہ بیش قیمت سرمایہ یونیورسٹی کی ایک دیوار کے پیچھے بوروں میں دبی ہوئی ملیں جیسے کوئی ردی فروش اپنی کباڑ کی دکان میں ردی رکھتا ہے۔
در اصل دو دن قبل رامپور پولیس نے جواریوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سالم اور انوار نامی شخص کو گرفتار کیا تھا۔ معاملہ تو جوئے کا تھا مگر اعظم خان اور اکھلیش یادو کی ملاقات کے دوران کھینچی گئی ایک تصویر نے اس معاملہ کو جوہر یونیورسٹی تک پہنچا دیا اور پھر بابا کے بلڈوزر نے اپنا کام دکھا دیا۔ اکھلیش یادو اور اعظم خان کی اس تصویر میں سالم اور انوار صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں اعظم خان و ان کے بیٹے عبداﷲ اعظم کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ہی اس وقت رامپور کے چیئرمین اظہر احمد خان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
دوسری جانب رامپور شہر کی موجودہ چیئرپرسن فاطمہ جبیں نے یونیورسٹی میں ملنے والی مشین کا میونسپلٹی سے کوئی تعلق ہونے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ملنے والی مشین کا رامپور بلدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فاطمہ جبیں نے کہا کہ وہ گاڑی بلدیہ کی نہیں ہے۔ رامپور بلدیہ نے اب تک 5 گاڑیاں خریدی تھیں، جس کی خریداری کے تمام ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہم نے ٹینڈر کا عمل مکمل کر کے خریدی تھیں جو ہمارے پاس تمام گاڑیاں موجود ہیں جو ہماری ورکشاپ میں کھڑی ہیں۔ زمین سے نکالی گئی وہ گاڑی کیسی ہے، ہمارے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔ ہم نے مینڈیٹ کے تحت جو مشینیں خریدی ہیں، ہمارے پاس دو کمپیکٹر مشینیں، دو سویپنگ مشینیں اور ایک سیور جیٹنگ مشین ہے، جو کہ روڈ سویپنگ مشین کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ہمارے پاس وہ سب کاغدات موجود ہیں جس کے ذریعہ یہ خریدی گئی تھی۔
رامپور پولیس کپتان کا کہنا ہے کہ سالم اور انوار سے ابھی اور بہت معلومات ملنے والی ہے جس کے لیے ان کی ریمانڈ حاصل کرنے کی تیاری ہے۔ یونیورسٹی سے ملنے والی کتابیں اور مشین کو لے کر جہاں اعظم خان کے حامیوں میں بے چینی ہے، وہیں سیاسی حلقوں میں اس کو لے کر کافی گہما گہمی ہے۔ آگے کیا ہونے والا ہے اس پر تمام ہی لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ فی الحال اعظم خان اور ان کے بیٹے عبد اﷲ اعظم کے ساتھ چھ اور لوگوں پر نئے مقدمے لگائے گئے ہیں۔ اعظم خاں اس پوری کارروائی کو سیاسی دشمنی کا نتیجہ بتا رہے ہیں اور سرکاری مشینری کا غلط استعمال بتا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔