مسکراتے مسکراتے دہلی کو بنا گئے ڈاکٹر والیہ
دہلی کو سنوارنے کا سہرا تو سابق وزیر اعلی شیلا دکشت کے سر ہی جاتا ہے لیکن دہلی کو سنوارنے اور بنانے میں شیلا دکشت کے جو اصل سپاہی تھے وہ ڈاکٹر والیہ ہی تھے
کورونا ہمارے اتنے قریب آ چکا ہے کہ یہ ہمارے قریبیوں کو ہم سے ہماری آنکھوں کے سامنے چھینتا ہے اور ہم کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے محض دیکھتے رہتے ہیں۔ صبح بعد میں ہوتی ہے پہلے کورونا سے متاثر ہونے کی یا کورونا سے جان جانے کی خبریں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی آج بھی ہوا۔ صبح ہوتے ہی پہلے خبر ملی کہ دہلی کے سابق وزیر صحت اور وزیر خزانہ ڈاکٹر اشوک کمار والیہ کو کووڈ نے ہم سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔ ابھی اس تعلق سے ساتھیوں سے فون پر بات ہو ہی رہی تھی کہ ہمارے صحافی دوست چیتن چوہان کے چھوٹے بھائی چنچل پال چوہان کی خبر آئی کہ ظالم کووڈ نے اس نوجوان صحافی کو بھی نہیں بخشا۔
ساتھیوں کو مطلع کرنے کے لئے ان کی خبر ٹوئٹ کرنے کی غرض سے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ کھولا تو دیکھا کہ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کے 34 سالہ بیٹے آشیش کو بھی کووڈ نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ ایک بار تو دل چاہا کہ بس سب چھوڑ کر آنکھیں بند کر کے سو جاؤں، کیونکہ گزشتہ کئی دنوں سے ایسی خبروں سے دل بہت پریشان ہے۔ اردو ادب کے چمکتے ستارے مشرف عالم ذوقی، انجم عثمانی، مشرف صاحب کی اہلیہ تبسم، صحافی رینو اگل، مولانا وحید الدین کے علاوہ کئی لوگوں کے انتقال کی خبروں نے پوری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ وائرس اتنا ظالم ہے کہ مرنے کے بعد بھی اپنے قریبیوں کو دور رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اللہ سب کو اس وائرس سے بچائے، آمین۔
ڈاکٹر والیہ کی خبر سنتے ہی میں اپنے اس صحافتی دور میں پہنچ گیا جہاں صحافت میں جھنڈے گاڑنے کو دل چاہتا ہے اور اس کوشش میں نئے نئے لیکن سماج کے بااثر لوگوں سے مل کر ذہن کے دروزے کھلتے ہیں اور نئے نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ اسمبلی اور دہلی حکومت کو کور کرتے وقت ڈاکٹر والیہ کے ساتھ تقریباً 20 سال کا عرصہ بہت قریب سے گزارا۔ کچھ کھٹے میٹھے واقعات فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے سے ایک کے بعد ایک گزرنے لگے۔ ان بیس سالوں میں ایک خواہش ضرور رہی کہ ڈاکٹر صاحب کو کبھی غصہ ہوتے ہوئے دیکھوں۔ صحافیوں کی بات تو بہت دور کی ہے انہیں تو کبھی اپنے افسران اور اپنے سیاسی حریفوں پر بھی غصہ ہوتے نہیں دیکھا۔
ڈاکٹر والیہ اس زمانے کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جب اس پیشہ کو بڑی عزت کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔ دریا گنج کے انصاری روڈ پر اپنی ایک بہن اور بڑے بھائی کے ساتھ پلے بڑھے، تاہم انہوں نے کبھی شادی نہیں کی۔ شادی انہوں نے اپنے کام سے کی ہوئی تھی۔ شادی کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا، ایک دفع ان کے ساتھیوں نے مذاق کرتے ہوئے ان کی شادی کا ایک فرضی کارڈ چھپوا دیا۔ جس دن یہ کارڈ سب کے سامنے آیا اس دن دہلی سچیوالیہ میں ان کی شادی پر ہی مذاق ہوتا رہا اور باتوں باتوں میں محسوس ہوا کہ شائد وہ ایک ناکام عاشق تھے، جس کی وجہ سے وہ شادی کے بندھن میں نہیں بندھے۔
دہلی کو سنوارنے کا سہرا تو سابق وزیر اعلی شیلا دکشت کے سر ہی جاتا ہے لیکن دہلی کو سنوارنے اور بنانے میں شیلا دکشت کے جو اصل سپاہی تھے وہ ڈاکٹر والیہ ہی تھے۔ افسران کے ساتھ میٹنگ کے بعد ہم جیسے صحافی میٹنگ کے تعلق سے خبر بنانے کے لئے ان کے کمرے میں بغیر روک ٹوک کے داخل ہو جاتے تھے۔ وہ اتنی خوبصورتی کے ساتھ سارے منصوبوں کی تفصیلات بتا دیا کر تے تھے کہ ہمیں ان منصوبوں کو زمین پرسمجھنے میں چاہے دشواری ضرور ہو لیکن خبر لکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ زمین پر سمجھانے کے لئے پھر وہ افسران کے ساتھ صحافیوں کو اس جگہ کا دورہ کراتے تھے۔ وہ اپنے کام میں کھوئے رہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کی زندگی بہت روکھی تھی۔ ان کو خوبصورت رنگوں کی ٹی شرٹ زیب تن کرنا جہاں پسند تھا وہیں وہ بند گلے اور تھری پیس سوٹ میں کسی بڑے ہیرو سے کم نہیں لگتے تھے۔ ان کو بیرون ملک کے دوروں کا شوق تھا۔
ان کے زندگی کو پورا جینے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دوست نے ان سے فلم ’منا بھائی لگے رہو ‘اپنے ملٹی پلیکس میں دیکھنے کے لئے کہا۔ ڈاکٹر والیہ جنہوں نے مجھے بتایا کہ گزشتہ 20 سالوں سے انہوں نے سنیما ہال میں کوئی فلم نہیں دیکھی، وہ کچھ صحافیوں کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے گئے۔ خالی وقت میں جہاں کچھ سیاسی قصہ سناتے تھے وہیں وہ اپنے بیرون ملک کے دوروں کے کچھ واقعات ضرور بتاتے تھے۔
ڈاکٹر والیہ جو سادہ مزاج تھے لیکن زندگی پوری جیتے تھے۔ ان کے ایک بڑے بھائی ہیں جو ایک بڑی کمپنی میں منیجر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ان کی بھابی گھریلو خاتون ہیں، ان کی ایک بھتیجی ہے۔ چھوٹی بہن جن کے وہ بہت قریب تھے ان کے دو بچے ہیں اور ان کے شوہر ایک کاروباری شخص ہیں۔ اپنے 20 سالہ تعلقات کے دوران کبھی میں نے ان کے گھر والوں کو ان کے دفتر میں یا سچیوالیہ میں نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کو جیسے اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا ایسے ہی اچھے کھانوں کا بہت شوق تھا۔ وہ میٹھے پان کے بھی شوقین تھے۔ بہت سارے واقعات یاد آ رہے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کیا تحریر کروں، ابھی ذہن ساتھ نہیں دے رہا، سو پھر کبھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔