15 سالہ مسلم لڑکی کو اپنی مرضی سے شوہر چننے کا حق ہے یا نہیں؟ عرضی پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ راضی
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ 14، 15، 16 سال کی مسلم لڑکیوں کی شادی ہو رہی ہے، ایسے میں کیا ایک قابل سزا جرم کا مسلم پرسنل لاء سے دفاع کیا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جو 15 سال سے زیادہ عمر والی مسلم لڑکیوں کے ذریعہ اپنا شوہر چننے کے حق سے متعلق ہے۔ عرضی قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی جانب سے داخل کی گئی ہے اور اس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ عرضی میں پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج پیش کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک مسلم لڑکی 15 سال کے بعد اپنی پسند کے شخص سے شادی کر سکتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے مذکورہ عرضی پر ہریانہ حکومت و دیگر کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیگر معاملوں میں مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ دراصل ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق مسلم لڑکی 15 سال کی عمر پوری کرنے کے بعد قانونی طور پر شادی کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا کہ ’’ہم ان رِٹ پٹیشنز پر غور کرنے کے لیے متفق ہیں۔ آگے کے حکم زیر التوا رہیں گے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مثال کے طور پر نہیں مانا جائے گا۔‘‘ اس معاملے میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ 14، 15، 16 سال کی مسلم لڑکیوں کی شادی ہو رہی ہے۔ ایسے میں کیا ایک قابل سزا جرم کا مسلم پرسنل لاء سے دفاع کیا جا سکتا ہے؟ دراصل اسلامی قانون کے مطابق بلوغت کی عمر 15 سال ہے اور اس کے بعد لڑکیوں کی شادی کی جا سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔