انصاف کی تلاش میں بہار سے دہلی آئی ڈاکٹر فیاض کی ماں

ڈاکٹر فیاض کا قتل بہار کے کٹیہار میڈیکل کالج میں گزشتہ 20 مارچ کو ہوا تھا لیکن اس کی ماں کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا ہے۔ وہ انصاف کی تلاش میں در در بھٹکتی ہوئی دہلی تک آ پہنچی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ذہیب اجمل

کٹیہار میڈیکل کالج کے ڈاکٹر فیاض کے قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے اور اس کی ماں انصاف کے لیے در در بھٹکتی ہوئی دہلی پہنچ گئی ہے۔ آج ایس آئی او دہلی کی جانب سے جامعہ نگر واقع صدر دفتر میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے میڈیا کے سامنے اپنی تکلیف بیان کی اور بتایا کہ کس طرح نہ ہی پولس انتظامیہ ان کی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی کٹیہار میڈیکل کالج کی انتظامیہ۔ انھوں نے اپنے بیٹے فیاض سے آخری بار ہوئی گفتگو کے تعلق سے بتایا کہ ’’19 مارچ کی شب 10 بجے بیٹے سے بات ہوئی اور اس نے مجھے باتوں باتوں میں کہا کہ اس کے پیچھے کچھ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ لیکن میرے کافی پوچھنے کے بعد بھی اس نے نہیں بتایا کہ وہ کس کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ میرے بابو نے بس اتنا کہا کہ کچھ نہیں ہوگا، آپ گھبرائیے مت۔‘‘

میڈیا سے بات چیت کے دوران انھوں نے اگلے دن یعنی 20 مارچ کو ڈاکٹر فیاض کے قتل کے تعلق سے بھی بتایا اور کہا کہ قتل کس نے کیا، کیوں کیا اور پورا معاملہ کیا ہے، اس سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا گیا اور ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کٹیہار میڈیکل کالج انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پولس انتظامیہ بھی پورے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولس انتظامیہ جس طرح خاموش ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں کام کر رہی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

پریس کانفرنس میں ڈاکٹر فیاض کی ماں کے علاوہ ان کے سالے تاثیر بھی موجود تھے جنھوں نے پورے معاملے کی تفصیل میڈیا کے سامنے رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ امت گپتا اور عامر نام کے لڑکے نے سب سے پہلے لاش دیکھی تھی لیکن امت گپتا اور عامر کے بیان بالکل الگ ہیں جس پر پولس کو سختی کرتے ہوئے ان سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ایک سیف حسن نام کا لڑکا ہے جس کے پاس ڈاکٹر فیاض کا ویلٹ، بیگ اور بقیہ سامان ہے اور اس نے پولس کو یہ سامان ڈپازٹ نہیں کیا۔ پولس نے اس کو گرفتار بھی نہیں کیا کیونکہ وہ کسی آئی جی کا بیٹا ہے۔‘‘ تاثیر نے اس طرح کی کئی ایسی باتیں میڈیا کے سامنے رکھیں جس سے محسوس ہو رہا تھا کہ اس پورے معاملے میں پولس کا رویہ غیر جانبدار نہیں ہے۔

تاثیر نے کٹیہار میڈیکل کالج انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ موجود نہیں جس سے کسی بھی غلط حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ ’’کٹیہار میڈیکل کالج اشفاق کریم صاحب چلاتے ہیں جو راجیہ سبھا ممبر ہیں۔ جب ڈاکٹر فیاض کے قتل معاملہ میں ان کی لاپروائیوں کو سامنے لایا گیا اور خبریں شائع ہوئیں تو وہ ہمیں اور میڈیا کے لوگوں کو فون کر کے ناراضگی ظاہر کرنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی نیا نیا راجیہ سبھا ممبر بنا ہوں اور میری شبیہ خراب کی جا رہی ہے۔‘‘ تاثیر نے اشفاق کریم پریہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ اخبار کے رپورٹوں کو معافی مانگنے کے لیے زور ڈال رہے ہیں۔

پولس کی کارروائی پر انگلی اٹھاتے ہوئے تاثیر کہتے ہیں کہ’’پہلےتو پولس سپرنٹنڈنٹ کہہ رہے تھے کہ بس تین سے چار دن میں فیاض کے قاتل کا پتہ لگا لیں گے لیکن اب وہ پیچھے ہٹ رہی ہے۔ کبھی اس قتل کو ڈرگس سے جڑا ہوا معاملہ بتاتی ہے، کبھی لڑکی کا معاملہ بتاتی ہے اور کبھی کسی اور چیز سے جوڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پولس پر بہت زیادہ پریشر ہے۔‘‘ تاثر اس بات پر بھی اعتراض ظاہر کرتے ہیں کہ جس کمرے میں ڈاکٹر فیاض کی لاش ملی تھی اس کمرے کو سیل کیوں نہیں کیا گیا اور ضروری قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

بہار میں انصاف کے لیےدر در بھٹکنے اور مارچ نکالنے کا جب کوئی اثر نہیں ہوا تو ڈاکٹر فیاض کی ماں دہلی تو پہنچ گئی ہیں لیکن یہاں بھی انھیں انصاف ملے گا یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر فیاض کے اہل خانہ دہلی میں بار بار یہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ قتل معاملہ کی سی بی آئی جانچ کرائی جائے تاکہ انصاف مل سکے، لیکن جس دلّی نے نجیب کی ماں کا درد نہیں سنا وہ ڈاکٹر فیاض کی ماں کو انصاف دلا پائے گی، یہ اس وقت ایک بڑا سوال ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔