رثائی ادب کا خادم ڈاکٹر عابد حیدری
عابد حیدری نے تحقیق، تنقید اور فکشن پر بھی کام کیا ہے لیکن ان کی قلمی سرگرمیوں کا مرکز و محور کسی نہ کسی حوالے سے رثائی ادب ہی رہا ہے۔
رثائی ادب اردو ادب کا جزو لاینفک ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ رثائی ادب اردو ادب کی آبرو ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔ صرف میر انیس اور مرزا دبیر کے مراثی کو ہی اگر اردو ادب کے دامن سے ہٹا لیا جائے تو اردو ادب کے دامن کی نہ رونق و زیبائی باقی رہے گی اور نہ بین الاقوامی ادب کے مقابلے میں وہ کہیں ٹھہر پائےگا۔ رثائی ادب کی بہت سی جہتیں ہیں۔ ان پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ قلمکاروں نے رثائی ادب کی خدمت کو ہی اپنا ادبی مشن بنا لیا ہے۔ ان قلمکاروں میں ڈاکٹر عابد حسین حیدری بھی شامل ہیں۔
عابد حیدری نے تحقیق، تنقید اور فکشن پر بھی کام کیا ہے لیکن ان کی قلمی سرگرمیوں کا مرکز و محور کسی نہ کسی حوالے سے رثائی ادب ہی رہا ہے۔ انہوں نے دبستان زید پور کی مرثیہ نگاری پر کام کیا اور زید پور کے ان مرثیہ نگار شعرا کی تخلیقات کو منظر عام پر پیش کیا جو گمنامی کی تاریکی میں تھے۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ بھی رثائی ادب سے ہی متعلق ہے۔ عابد حیدری نے ایک ایسے موضوع پر بھی کام کیا جو بالکل اچھوتا ہے۔ اور وہ ہے والمیکی کی رامائن، تلسی داس اور میر انیس پر مطالعاتی اور تجزیاتی کام۔ مولا علی سے متعلق اردو ادب میں جتنے مراثی نظم کئے گئے ہیں عابد حیدری ان کا انتخاب ایک کتابی شکل میں پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عابد حیدری نے رثائی ادب کی اہم صنف نوحے کے ارتقائی سفر پر بھی کتاب لکھی ہے۔ ڈاکٹر عابد حیدری کی علمی اور ادبی خدمات پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے ان کے تعلیمی سفر اور خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔
10 نومبر1968 کو عابد حسین حیدری اتر پردیش کے ضلع مئو کے کوپا گنج میں پیدا ہوئے۔ والد یعقوب حسین علاقے کی ایک با عزت شخصیت تھے۔ گھر کا ماحول تعلیمی اور مذہبی طور سے عزائی تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عابد حیدری نے لکھنؤ کو منتخب کیا اور تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز لکھنؤ یونیورسٹی کو بنایا، 1989 میں بی اے 1991 میں اردو میں ایم اے اور2006 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا ''اردو میں شخصی مرثیہ کی روایت۔" یہ تحقیقی مقالہ انہوں نے اردو شعبہ کے صدر پروفیسر انیس اشفاق کی نگرانی میں تحریر کیا۔ اس وقت ڈاکٹر عابد حیدری اتر پردیش کے سنبھل میں ایم جی ایم پوسٹ گریجویٹ کالج کے صدر شعبہ اردو ہیں۔ انہوں نے کافی عرصہ تک کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔
یہ بات شاید کم ہی لوگوں کے علم میں ہوگی کہ عابد حیدری باقاعدہ ادیب و مصنف بننے سے پہلے ہی بحیثیت صحافی قلمکار بن چکے تھے۔ معاشی زندگی کی ابتدا عابد حیدری نے سرگرم اور عملی صحافت سے کی۔ "ہماری توحید" اور 'وطیفہ' نامی رسالوں کے سب ایڈیٹر اور جوائنٹ ایڈیٹر رہے، 1992 میں وہ ممبئی سے شائع ہونے والے دو ماہی جریدہ 'العلم' کے جوائنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ یہ جریدہ معروف ادیب اور مجاہد آزادی علی جواد زیدی کی قابل ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 1995 ممبئی سے واپس لکھنؤ آگئے اور اردو روزنامہ 'صحافت سے بحیثیت سب ایڈیٹر وابستہ ہو گئے۔ 1998 میں ہفتہ وار 'جدید مرکز' سے وابستہ ہو گئے اور 2001 تک اس ہفتہ وار اخبار کے توسط سے صحافتی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ جب عابد حیدری نے 'جدید مرکز' کو الوداع کہا اس وقت وہ نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز تھے۔
عابد حیدری کی زندگی میں اہم موڑ 15 جنوری 2001 میں اس وقت آیا جب ان کا تقرر اردو لیکچرار کے طور پر سنبھل کے ایم جی ایم کالج میں ہوا اور انہوں نے صدر شعبہ اردو کی ذمہ داری سنبھالی۔ عابد حیدری نے اس کالج کے معیار تعلیم کو بلند کرنے اور یو جی سی سے اس کو بی پلس پلس گریڈ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بحیثیت پرنسپل عابد حیدری نے جدید تقاضوں کے تحت کالج کو ڈجیٹل لینگویج لیب سے آراستہ کیا۔ شعبہ اردو اور شعبہ سیاسیات کے لئے نئی عمارتیں تعمیر کرائیں۔ کالج کے لئے ایم کام، بی اے جغرافیہ، ڈرائنگ اور پینٹنگ کورس کی روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے منظوری دلائی۔ عابد حیدری روہیل کھنڈ یونیورسٹی کی اردو نصاب کمیٹی کے ممبر بھی رہے ہیں۔
عابد حیدری نے اردو شعبہ کی ادبی سرگرمیوں کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ شعبے کی جانب سے اردو ادب کی متعدد شخصیات پر درجنوں سیمنار، سمپوزیم اور پروگراموں کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ شہر سنبھل کے ادیبوں کو کالج سے جوڑا گیا۔ مقامی قمکاروں کو انعامات سے نواز کر اہل قلم کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ عابد حیدری کی نگرانی میں کئی اسکالرز پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔
جہاں تک تصنیفات کا تعلق ہے تو مختلف موضوعات پر ان کی چودہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں کچھ تو اپنے موضوعات کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ 'زراعت ظرفی'، 'ادبیات کشمیر'، 'علم سیاست'، 'علم نفسیات' محسن زید پوری کے مراثی کا مجموعہ، ارمغان محسن، دبستان زید پور کی مرثیہ گوئی ''شاگرد مرزا دبیر ذکی بلگرامی'' اردو مرثیہ کی جمالیات ''اردو کے منتخب شخصی مرثیے'' رثائیت، تعزیت اور شخصیت'' رثائی تحائف، مضامین کا مجموعہ 'میرے تجزیاتی اوراق' نوحے کا ارتقائی سفر، جیسی کتابیں اردو ادب میں رثائی ادب کے حوالے سے اپنی حیثیت تسلیم کراچکی ہیں۔
ہندوستان میں مراثی نظم کرنے والے شعرا پر مبنی کتاب 'ہندوستان میں مرثیہ کی نئی آواز' کے عنوان سے جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے۔ عابد حیدری کی یہ کتاب کئی اعتبار سے منفرد ہوگی۔ مصنف نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ اس میں صرف ان ہی مرثیہ گو شعرا کا تعارف اور نمونہ کلام شامل کیا جا رہا ہے جو ہندوستان میں رہ کر مرثیہ گوئی کر رہے ہیں۔ اب تک مرثیہ گو شعرا کے جتنے تذکرے شائع ہوئے ہیں ان میں ہندوستان کے کم اور پاکستان کے زیادہ شعرا کا تذکرہ ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بہت کم شعرا مرثیے نظم کر رہے ہیں اور نئی نسل کے شعرا تو اس میدان میں جیسے موجود ہی نہیں ہیں۔ 'ہندوستان میں مرثیہ کی نئی آواز' یقینی طور پر ایک تاریخی اور دستاویزی حیثیت کی کتاب ہوگی۔ عابد حیدری زید پور کے ہی ایک اور مرثیہ گو شاعر ناصر زید پوری پر کتاب تیار کر رہے ہیں جس میں ناصر زید پوری کا وہ کلام شامل ہوگا جو اب تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہا ہے۔ ناصر زید پوری کا کلام جمع کرنے میں عابد حیدری کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ صرف وہ ہی لگا سکتے ہیں۔ 'رثائی باتیں' کے عنوان سے رثائی ادب کے تعلق سے اپنے مضامین کا ایک مجموعہ بھی عابد حیدری مرتب کر رہے ہیں۔
عابد حیدری نے مختلف موضوعات پر جو تحقیقی مضامین مختلف عالمی اور قومی رسائل و جرائد کے لئے تحریر کئے یا ادبی کانفرنسوں اور سیمناروں میں جو ادبی خطبات دیئے ان کی تعداد بھی سو سے زائد ہے۔ جن موضوعات پر ان کی تقریریں اور مقالے موجود ہیں ان میں کچھ اس طرح ہیں۔ 'ماحولیاتی فکشن نگار احمد حسنین' 'تزک جہانگیری کا ماحولیاتی نظام'' افضل جھنجھانوی کی بکٹ کہانی کا تجزیاتی مطالعہ'' تصوف کی عصری معنویت'' شمالی ہند میں جذبات نگاری کا مثلث افضل نظیر اور جوش'' آزادی کے بعد اردو افسانے میں تحریک آزادی کی گونج ''اکیسویں صدی میں بنگال کا رثائی ادب'' بزم آفندی کے نعتیہ مرثیوں کی جمالیات ''نئے افسانے میں واقعات کربلا کی عکاسی'' پروفیسر نیر مسعود اور رثائی ادب'' جدید مرثیے میں عصری حسیت ''بارگاہ امام سجاد میں نسیم امروہوی فرزدق کے ساتھ'' نفیس ادیب اور مرزا جعفر حسین'' خمار۔بارگاہ رسول و آل رسول میں'' اردو ادب میں فیض آباد کی اہمیت ''میر انیس اور زید پور'' 'ممبر انتقاد کا خطیب اعظم' تصور حسین زیدی ''فقیہہ شفائی کا روضہ البکا'' میر انیس اور عصمت چغتائی 'اک قطرہ خون پر ایک نظر' دبیر کی شاعری اور ماورائی فضا' اتر پردیش میں اردو کی صورتحال۔ ایک لمحہ فکریہ ''اردو اور ہندوستانیت'' اردو مرثیہ ہندوستانیت اور نسیم امروہوی ''عصری حسیت اور اردو مرثیے'' اکیسویں صدی کا رثائی ادب 'شخصی مرثیہ اور میر انیس' 'فراست زید پوری کی مرثیہ گوئی میں تصوف کی باز گشت' اور اردو میں ریسرچ کی صورتحال، بہت سے موضوعات تو ایسے ہیں جن پر قلم اٹھا کر عابد حیدری نے مستقبل کے اردو اسکالرس کے لئے تحقیق کا میدان فراہم کردیا ہے۔ ان موضوعات پر مزید ریسرچ کرکے اردو اسکالرز اردو ادب کے سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کرسکتے ہیں۔ ملک کی مختلف ادبی انجمنیں، ادارے اور اردو اکادمیاں عابد حیدری کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرکے انہیں اعزازات اور انعامات سے نواز چکی ہیں۔ عابد حیدری نے رثائی ادب کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اردو ادب کو عابد حیدری کی ایسی نگارشات کا انتظار رہے گا جو اس کے لئے باعث افتخار ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔