رپورٹرکی ڈائری:کیا ایگزٹ پول والے گجرات کے ووٹروں کے دل کی بات کہہ رہے ہیں؟

گجرات کے ایگزٹ پول میں جو بھی اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہوں لیکن یہ صرف جوڑ توڑ اور تصورات پر مبنی ہیں۔ یہ نتائج ’ہاں‘یا’نہیں‘ میں دیے گئے جواب کو بنیاد بنا کر نکالے جاتے ہیں جو عموماً غلط ہوتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

کرکٹ اگر غیر یقینی کا کھیل ہے تو سیاست کا کھیل بھی غیر یقینی کے کسی دلچسپ سفر سے کم نہیں۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ اروند کیجریوال نام کا معمولی سا شخص سیاست کے ماہر کھلاڑیوں کو شکست فاش دے کر دہلی کے اقتدار پر قابض ہو جائے گا۔ کون جانتا تھا کہ نریندر مودی اڈوانی جیسے ’آئرن مین‘ کو پیچھے چھوڑ کر بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم عہدہ کا امیدوار بنتے ہوئے ایک دن ہندوستان کا وزیر اعظم ہی بن جائیں گے۔ کیا کسی کو پتہ تھا کہ نوٹ بندی کی مار سے جس عوام کی کمر جھک کر گھٹنے تک پہنچ گئی ہے وہی عوام اتر پردیش اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار کر دے گی؟

ظاہر ہے سیاست کا کھیل ریاضی سے آگے بڑھ کر امکانات کے کندھوں پر بھی آگے بڑھتا ہے۔ اس کھیل کو سمجھنے کے لیے ٹی وی چینلوں کے کیمرے اور ایگزٹ پول کے ریاضی پر مبنی فارمولے نہیں بلکہ اس ملک کو سمجھنے والا ذہن چاہیے۔ میں یہ بات اس دلیل کو مانتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کا ذہن بہت پیچیدہ ہے۔ اگر جذبات کی ’برین میپنگ‘ کی جائے تو پختہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا ذہن دنیا میں سب سے پیچیدہ ثابت ہوگا۔ اسے پڑھنا، پڑھ کر سمجھنا اور سمجھ کر بیان کرنا ایک سے بڑھ کر ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ گجرات کے انتخابی نتائج سے متعلق جو بھی اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں وہ غلط ثابت ہوں گے کیونکہ وہ اعداد و شمار صرف ریاضی پر مبنی سوچ کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہیں جہاں کسی کے ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں دیے گئے جواب کو بنیاد بنا کر کچھ نتائج نکالے جاتے ہیں۔ وہ بھی اُس وقت جب کروڑوں کی پسند کا فیصلہ محض کچھ ہزار لوگوں کے جواب سن کر کیا جائے تو اس غلطی کے ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔

جمال پور کے رہنے والے فاروق کی عمر کا اندازہ ان کی رنگی ہوئی داڑھی کو دیکھ کر نہیں لگایا جا سکتا، لیکن ان کی مسکراہٹ ہر عمر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے کافی ہے۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تب وہ ایک لحاف کی دکان کے اندر چائے نوشی کے لیے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس بار گجرات کی عوام کانگریس کی حمایت میں نہیں بلکہ بی جے پی کی مخالفت میں ووٹ کرے گی۔ ان کے اعتماد کی وجہ کیا تھی مجھے معلوم نہیں لیکن انھوں نے کہا تھا کہ ”لکھ لو، چناو¿ میں بی جے پی کی بری طرح شکست ہوگی۔“ بی جے پی کو شکست دینے والے مسلمان نہیں ہندو ہیں۔ جس صوبے کو فرقہ واریت کی تجربہ گاہ بنا کر بی جے پی نے کئی دہائیوں تک حکومت کی وہی صوبہ اس سیاسی تجربہ کے انہدام کی شروعات کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فاروق نے بے حد آسان الفاظ میں سمجھا دیا کہ کس طرح سیاست کا گلوب معیشت کے قطب پر گھومتا ہے۔ کارل مارکس کے مکمل فلسفے کی بنیاد انہی دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جو فاروق بھائی نے کہا- معیشت ہی سیاست کی اصل ہے۔

فاروق نے بتایا کہ کس طرح گجرات میں اس مرتبہ انتخابی نتائج پر مذہب نہیں بلکہ معیشت اثرانداز ہونے والا ہے۔ رام کا نام تو دنیا میں ہمیشہ رہے گا لیکن رام نام کی روٹی سینکنے والے اس بار مناسب ایندھن نہیں ڈال پا رہے ہیں۔ جی ایس ٹی کے بعد ہوئی بربادی نے صرف فاروق کو ہی نہیں ان کی فیکٹری میں کام کرنے والے رامو، شیامو کو بھی بدحال کر دیا ہے۔ بہت ممکن ہے فاروق بھائی کسی چینل والے یا ایگزٹ پول کی دکان چلانے والے کے سامنے اپنے دل کی بات نہ کہہ پائیں، لیکن جب ایک بھروسے کا رشتہ بن گیا اور کڑک چائے کی تین پیالیوں کے درمیان انھوں نے مسلم طبقہ کے دل کے کئی راز یوں ہی ظاہر کر دیے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نیوز چینلوں کے پاس ایک گجراتی مسلمان کی تکلیف کو درج کرنے کا کوئی کالم ہے یا نہیں جو یہ کہہ رہا تھا کہ اس بار بی جے پی کی شکست اس کی اب تک کی فتح کا نتیجہ ہوگی۔

سیٹوں کے جوڑ توڑ میں الجھے دماغ کے لیے بھی اس طرح کی سمجھ کا کوئی وجود نہیں لیکن سیاست میں کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ صرف سیٹوں کی گنتی سے نہیں بلکہ نظریات کی شکست و فتح سے بھی ہوتا ہے۔ کروڑوں کا معاہدہ کرنے والی کسی ایگزٹ پول کمپنی کے لیے ظاہر ہے کسی سوچ یا نظریہ کی بات کرنا فطور سے کم نہیں، لیکن اگر معروف نظریات سماج کے دل کی بات کو سمجھنے کا ایک پیمانہ ہیں تو پھر اس بار گجرات کا انتخاب کانگریس کو جیتنا چاہیے۔ سیاسی نظریات کی جنگ میں کانگریس ہر زاویہ سے بی جے پی سے ایک قدم آگے رہی۔ ایک ابھرتے ہوئے مضبوط لیڈر کی شکل میں راہل گاندھی کا سامنے آنا، مذہبی طور پر منقسم ریاست میں ان کی عوام میں مقبولیت، تاجر طبقہ کا مودی کے خلاف تحریک، دلتوں کی اعلیٰ ذات کے خلاف ناراضگی، ہر ایشو کو کانگریس نے نظریات کی جنگ میں بہتر طریقے سے استعمال کیا۔

رپورٹرکی ڈائری:کیا ایگزٹ پول والے گجرات کے ووٹروں کے دل کی بات کہہ رہے ہیں؟

جین فیملی میں پیدا ہوئے جیندر بھائی شاہ دل سے ہندو ہیں، لیکن انھوں نے کھل کر کہا کہ اس بار وہ اپنا ووٹ ایک مسلمان امیدوار کو دیں گے۔ کیا دوسرے ہندوﺅں نے بھی ایسا ہی سوچا ہوگا؟ جیندر کی سوچ اس وقت مزید قابل غور ہو جاتی ہے جب یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں جیندر بھائی رہتے ہیں وہاں سے بی جے پی امیدوار کا دفتر مشکل سے 500 میٹر دور ہوگا۔ لیکن جیندر کبھی اقتدار کے دروازے تک نہیں گئے۔ اتوار کی جس دوپہر کومیں جیندر بھائی سے ملا اسی دن دیکھا کہ کھاڑیا-جمال پور سیٹ میں بی جے پی امیدوار کے ’کیمپین آفس‘ میں تالا لگا تھا۔ جیندر بھائی بتاتے ہیں کہ بی جے پی دفتر میں لٹکا تالا اس بات کا اشارہ ہے کہ گجرات میں فرقہ وارانہ سیاست کی دکان بند ہونے والی ہے۔

معلوم نہیں کسی ایگزٹ پول ایجنسی کے پاس اس ماحول کو درج کرنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جیندر بھائی شاہ اس دنیا میں تنہا نہیں۔ وہ اسی ذات اور طبقہ سے آتے ہیں جس سے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ آتے ہیں۔ تو کیا یہ دعویٰ اس بات کا اشارہ ہے کہ خود امت شاہ کی برادری کے لوگ ان سے خفا ہیں۔ 18 دسمبر کو جب گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آئیں گے تو حقیقت سب کے سامنے کھل کر آ جائے گی لیکن معروف فلسفی روسو کا یہ جملہ یاد رکھنے والا ہے کہ اگر دلیل کی زبان دل کے راستے سے گزرے تو اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Dec 2017, 1:13 PM