عجب شاملی پولیس کی غضب کہانی: اصل مالک کا پتہ لگانے کے لیے ہو رہا بھینس-بچھڑے کا ڈی این اے ٹیسٹ

شاملی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اپنی طرح کا پہلا معاملہ ہے، اس سے پہلے بھینس چوری کے کسی معاملے میں ڈی این اے تکنیک کے ذریعہ سے کوئی جانچ نہیں کی ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

آپ اگر رامپور میں سماجوادی پارٹی لیڈر اعظم خان کی بھینس چوری ہونے پر اس کی تلاش میں سرکاری عملہ کو لگانے کی خبر بھول گئے ہیں تو اب اتر پردیش پولیس مزید ایک نایاب کہانی لے کر سامنے آئی ہے۔ اتر پردیش کے شاملی ضلع میں چوری کے ایک بچھڑے (بھینس کا بچہ) کے اصل مالک کا پتہ کرنے کے لیے یوپی پولیس بھینس اور بچھڑے کا ڈی این اے ٹیسٹ کرا رہی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ تک پہنچنے کے لیے پولیس کو ایک مہینے کا وقت لگا ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اس کے لیے شاملی پولیس نے ویٹنری ڈیپارٹمنٹ سے ایک مہینے تک طویل خط و کتابت بھی کی۔ گزشتہ جمعہ کو ویٹنری سے جڑی ایک ٹیم نے بچھڑے اور اس کی مبینہ بھینس ماں کا ڈی این اے سیمپل لے لیا۔ سیمپل دہلی بھیج دیا گیا ہے اور اس کی رپورٹ تین مہینے میں آنے کی امید ہے۔

شاملی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اپنی طرح کا پہلا معاملہ ہے۔ اس سے پہلے بھینس چوری کے کسی معاملے میں ڈی این اے تکنیک کے ذریعہ سے کوئی جانچ نہیں کی ہے۔ یہ واقعہ اب علاقے میں موضوعِ بحث بن گئی ہے اور ہر کوئی معاملے کی جانکاری چاہتا ہے۔ معاملہ شاملی ضلع کے جنجھانا تھانہ کا ہے۔ یہاں ایک سال پہلے اسی تھانہ علاقہ کے گاؤں احمد گڑھ کے چندرپال کشیپ نے 25 اگست 2020 کو اپنے بچھڑے کے چوری ہونے کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ انسپکٹر جھنجھانا روجنت تیاگی کے مطابق تھانہ پر یہ مقدمہ ایف آئی آر نمبر 21/220 کے طور پر درج ہے۔ پولیس بچھڑے کی تلاش میں مصروف تھی، لیکن اس سے پہلے ہی بچھڑے کے مالک چندرپال نے مبینہ طور پر بچھڑا تلاش کر لیا۔


بچھڑے کے مالک چندرپال نے بتایا کہ انھیں کسی نے بتایا کہ ان کا بچھڑا سہارنپور ضلع میں آنے والے بین پور گاؤں میں ہے۔ وہ وہاں گئے تو یہاں ستبیر سنگھ کے یہاں انھوں نے بچھڑا پہچان لیا۔ لیکن انھیں وہ بچھڑا نہیں لانے دیا گیا۔ انھوں نے پولیس کو بتایا تو پولیس وہاں پہنچی اور بیشتر لوگوں کا کہنا تھا کہ بچھڑا ستبیر کی بھینس کا ہی ہے۔ ستبیر کی بھینس نے بھی تین سال پہلے بچھڑا دیا تھا۔ جھنجھانا پولیس کو بچھڑے کی پہچان کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ تھانہ انچارج جھنجھانا روجنت تیاگی کے مطابق بھینس سبھی کالی ہوتی ہیں، اور جیسا چوری کا معاملہ سامنے آیا ہے ویسا تو ٹریننگ میں کبھی سامنے نہیں آیا۔

بچھڑے کے مبینہ مالک چندرپال کے مطابق جھنجھانا پولیس نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور وہ بے بس ہو گئے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بچھڑا اب تین سال کا ہو گیا ہے۔ چندرپال کا کہنا ہے کہ گزشتہ مہینے وہ ایس پی شاملی سکیرتی مادھو کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کچھ کرنے کی گزارش کی، تو انھوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے حکم دے دیا۔


ایس پی شاملی سکیرتی مادھو نے بتایا کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ تھا اور پولیس کسی بھی معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ایک بچھڑے پر دو مالک اپنا دعویٰ کر رہے تھے تو ہم نے بچھڑے اور مدعی چندرپال کی بھینس کا ڈی این اے کرانے کا فیصلہ لیا۔ اس کا نتیجہ آنے پر اصل مالک کا پتہ چل جائے گا۔ سابق رکن اسمبلی عبدالوارث نے اس معاملے میں کہا کہ ’’یہ حیرت انگیز معاملہ ہے کہ پولیس ایک بچھڑے کے اصل مالک کا پتہ لگانے کے لیے بچھڑے اور بھینس کا ڈی این اے کرا رہی ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ پولیس کی ترجیحات کیا ہیں۔ حالانکہ اتر پردیش میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی بچھڑے کو اس کی اصل ماں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا رہا ہو۔ ویٹنری ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم احمد گڑھ سے بھینس اور بین پور گاؤں سے بچھڑے کا سیمپل لے کر ٹیسٹ کے لیے دہلی بھیج چکی ہے۔

اس معاملے کو دیکھنے والے ارون موتلا کے مطابق یہ ایک بے حد چیلنجنگ عمل تھا اور وہ ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے عمل کو بھی سمجھنا چاہتے تھے کیونکہ جانوروں کے بارے میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے کافی کوششیں کی ہیں۔ اس مقدمے میں دلچسپی کے عناصر ہیں۔ اتر پردیش میں ڈی این اے جانچنے والی کوئی لیب نہیں ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس دہلی اور گجرات کا ہی متبادل تھا۔ ٹیسٹ کے لیے سیمپل دہلی بھیجا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔