خودکشی کرنے والے لاکھوں کسانوں کی پریشان حال بیوائیں

ہندوستان کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکز اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

جرائم کے نیشنل ریکارڈ بیورو کے سن 2015 تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سن 1995 اور سن 2010 کے درمیان پندرہ برسوں میں تقریباً دو لاکھ ستاون ہزار کسانوں نے خودکشی کر لی تھی۔ ایک معتبر بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مہاراشٹر میں روزانہ کی بنیاد پر7 کسان خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر سن 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

وجےشری بھگت 29 برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اُس کا تعلق مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اُس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔

وجے شری کے شوہر پرشانت کو بھی مسلسل اپنی کاشت کاری سے پے در پے نقصان کا سامنا تھا۔ وجے شری کا کہنا ہے کہ اُس وقت اُسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اُس کے ارد گرد کیسے حالات جنم لے چکے ہیں اور وہ گھریلو تکرار کو ہی اپنے خاندان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ رہی تھی۔ وہ اُس وقت 7 ماہ کی حاملہ تھی اور اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی جب اُس کے شوہر پرشانت نے خودکشی کر لی تھی۔ اُس کے بھائی نے بھی کاشت کاری میں شدید نقصان کے بعد اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی تھی۔ ان خودکشیوں کے بعد سبھی نے اُس کے ساتھ رشتے ناطے ختم کر دیے اور وہ لاوارث ہو کر رہ گئی تھی۔

ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اُس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سیکورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اُن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ’مکام‘ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اُن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔

وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشی کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اُن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔