یوگی حکومت نے مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں سے کیوں کرائی: فرنگی محلی

جن 4 لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کرائی گئی ہے ان کے نام رضوانہ، نوری، سیما اور صبا ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں 4 مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو رسم رواج کےمطابق ہندو لڑکوں سے کرائے جانے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ مسلم طبقہ اس سے سخت ناراض ہے اور مسلم عالم دین نے اس معاملہ کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، یہ شادیاں لکھنؤ میں واقعہ مہانگر کلیان بھون میں منعقدہ اجتماعی شادی تقریب کے دوران بدھ یعنی 17 اکتوبر کو کرائی گئیں اور تقریب کا انعقاد محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے کیا گیا۔ اجتماعی شادی تقریب میں 27 ہندو جوڑوں کی شادیاں ہوئیں۔ تقریب سے ایک دن قبل سبھی جوڑوں کی شادی اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت عدالت میں کرا دی گئی تھیں۔ محکمہ بہبود خواتین اور محکمہ سماجی بہبود نے مشترکہ طور پر تقریب کا اہتمام کیا۔

تقریب کے دوران کل 31 یتیم لڑکیوں کی شادی کرائی گئی ان میں سے 27 ہندو اور 4 مسلمان لڑکیاں شامل تھیں۔ مسلم لڑکیوں کی شادی بھی ہندو لڑکوں سے ہندو رسم و رواج کے مطابق کرائی گئیں۔ باقاعدہ پھیرے ہوئے، ور مالائیں ڈلوائیں گئیں اور پنڈتوں نے منتر پڑھے۔

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین کے مطابق حکومت کو ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے۔ لیکن جب سے مودی حکومت اور اس کے بعد یو پی میں یوگی حکومت برسراقتدار آئی ہے ہر اصولوں کو بالاطاق رکھ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ بی جے پی سے وابستہ آئینی عہدوں پر فائز نمائندگان ووٹوں کے لئے مسلمانوں کو ہراساں کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے ان کے احساساست مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جن 4 لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کرائی گئی ہیں ان کے نام رضوانہ، نوری، سیما اور صبا ہیں۔ رضوانہ کی شادی شاہجہانپور کے راجکمار سے، نوری کی شادی علی گڑھ کے ببلو سے، سیما کی شادی امیش کمار دیکشت اور صبا کی شادی ہردوئی کے وجے سنگھ کے ساتھ کرائی گئی ہے۔

مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں سے ہندو رسم و رواج کے تحت کرائے جانے کے سوال پر سی ڈی او (ترقیاتی افسر) منیش بنسل نے کہا کہ لڑکیوں کے نام مسلم ضرور ہیں لیکن وہ بچپن سے شیلٹر ہوم میں ہی پلی بڑھی ہیں، کسی نے ان کی ذات یا مذہب کے بارے میں پوچھا ہی نہیں۔ وہ مسلم رسم و رواج کو نہیں مانتیں ہیں۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہروں کے مذہب پر ہی عمل کریں گی۔

لکھنؤ کے مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے مسلم لڑکیوں کی شادی ہندوؤں سے کرانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے کہ شادی سے پہلے مسلم لڑکیوں سے اس بات کی اجازت لی گئی ہے یا نہیں کہ ان کی شادی ہندو لڑکوں سے کرائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’شادی سے پہلے ضلع انتظامیہ نے مسلم عالم دین سے رابطہ قائم کیوں نہیں کیا۔ ہم اس معاملہ میں قانونی طور پر ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔‘‘

شیعہ عالم دین مولانا سیف عباس نے بھی اس معاملہ کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیاں دراڑ اور بڑھے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر شادیاں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت عدالت میں کرائی گئی ہیں تو پھر ہندو رسم و رواج کے تحت دوبارہ شادی کرانے کی کیا ضرورت تھی؟۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Oct 2018, 9:09 AM