امتیاز یا اتفاق؟ مرکزی قوانین کا سب سے زیادہ گجراتی میں ترجمہ، بنگالی فہرست میں سب سے نیچے
ایک سوال کے جواب میں قانون اور انصاف کے وزیر کرن رجیجو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سب سے زیادہ 619 قوانین کا گجراتی میں ترجمہ ہوا اور سب سے کم بنگالی میں صرف 139 قوانین کا ترجمہ ہوا
نئی دہلی : مرکزی قوانین کو مقامی زبانوں کو جاننے والے لوگوں کے لیے قابل فہم اور قابل رسائی بنانے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان قوانین کا آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج تمام سرکاری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 زبانوں کو ہندوستان کی سرکاری زبانوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
علاقائی زبانوں میں ترجمہ شدہ مرکزی قوانین کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ گجراتی میں سب سے زیادہ تعداد میں قوانین کا ترجمہ کیا گیا ۔ آیا یہ محض اتفاق ہے یا ایسا کسی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ، اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا لیکن سی پی آئی کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن بنوئے وسوام کا خیال ہے کہ یہ حکومت کا ایک غیر مناسب اقدام ہے، جو شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو عوامی مشاورت کے عمل میں شامل ہونے سے روکتا ہے!
وسوام کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قانون اور انصاف کے وزیر کرن رجیجو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ سب سے زیادہ 619 قوانین کا گجراتی میں ترجمہ ہوا اور سب سے کم بنگالی میں صرف 139 قوانین کا ترجمہ ہوا۔ گجراتی کے بعد مراٹھی میں 381 قوانین کا جبکہ کنڑا میں 372 قوانین کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
وزارت قانون و انصاف کے لیجسلیٹیو ڈپارٹمنٹ آفیشل لینگویجز ونگ (ایل ڈی او ایل) کی طرف سے بھیجے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اردو میں 330 مرکزی قوانین کا ترجمہ کیا گیا، جبکہ 329 قوانین کا ملیالم میں ترجمہ کیا گیا۔اگرچہ ملک میں موجود مرکزی قوانین کی تعداد کا کوئی سرکاری تخمینہ نہیں ہے، لیکن قابل اعتماد مطالعات کے مطابق ان کی تعداد 4000 سے زیادہ ہے ۔
علاقائی زبانوں میں ترجمہ شدہ قوانین کی تعداد کے علاوہ سی پی آئی ایم پی نے ایل ڈی او ایل کے لیے منظور شدہ کل عہدوں کے مقابلہ خالی آسامیوں کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی۔ حکومت نے خود اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ 75 آسامیوں کے مقابلے میں 26 آسامیاں خالی ہیں۔ سرکاری پالیسی کے سوال پر حکومت نے کہا کہ عوام کے تبصروں کے لیے وزارت کی ویب سائٹس پر شائع کئے جانے والے مسودہ بل، قواعد و ضوابط کےحوالہ سے کوئی سرکاری پالیسی موجود نہیں ہے۔
اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، وسوام نے کہا کہ ’’حکومت کا یہ اقدام نامناسب ہے جو شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو عوامی مشاورت کے اس عمل میں شامل ہونے سے روکتا ہے جس سے وہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ وسوام نے مزید کہا ’’حکومت کو سنجیدگی سے اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی طور پر میں شائع ہونے والے تمام مسودہ بل، قواعد اور احکامات کا تمام سرکاری زبانوں میں ترجمہ کیا جانا چاہیئے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔