دگوجے کی ’نرمدا یاترا‘ ختم، بی جے پی کا ٹینشن شروع

کانگریس کے سینئر لیڈر دگوجے سنگھ نے اپنی بیگم امرتا رائے کے ساتھ 192 دن کی ’نرمدا پریکرما‘ مکمل کی اور آج اس کی اختتامی تقریب میں بی جے پی کے کئی اہم وزراء نے بھی شرکت کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے سینئر لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ دگوجے سنگھ کی ’نرمدا یاترا‘ آج مدھیہ پردیش میں اختتام کو پہنچی۔ 30 ستمبر 2017 کو شروع ہوئی اس یاترا کے اختتام پر دگوجے سنگھ اور ان کی بیگم امرتا رائے نے روایت کے مطابق نرمدا پوجا کی۔ نرسنگھ پور کے برمان خرد میں ان کی پوجا کے دوران نہ صرف ہزاروں لوگ موجود تھے بلکہ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ پرہلاد پٹیل، ان کے چھوٹے بھائی وزیر جالم سنگھ پٹیل، بی جے پی ممبر اسمبلی سنجے شرما کے علاوہ کئی دیگر بی جے پی لیڈران نے بھی شرکت کی۔ ویسے تو دگوجے سنگھ نے یاترا شروع کرنے کے وقت اعلان کیا تھا کہ یہ کوئی سیاسی یاترا نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یاترا کے اختتام پر بی جے پی ٹینشن میں نظر آ رہی ہے۔

تقریباً 3300 کلو میٹر کی اس پیدل یاترا کے اختتام پر بی جے پی کا پریشان ہونا اس لیے بھی لازمی ہے کیونکہ دگوجے سنگھ نے کل ہی میڈیا سے بتایا کہ اگر کانگریس انھیں مدھیہ پردیش کی ذمہ داری دینا چاہتی ہے تو وہ بخوشی قبول کریں گے لیکن وزیر اعلیٰ بننے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ یہ بیان یقیناً بی جے پی، خصوصاً مدھیہ پردیش بی جے پی اور وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ کی دھڑکنیں بڑھا دینے والا ہے۔ اپنی یاترا کے دوران مدھیہ پردیش کے کم و بیش 120 اسمبلی حلقوں کا دورہ کرنے والے دگوجے نے صرف موجودہ بی جے پی حکومت کی خامیوں کا ہی مشاہدہ نہیں کیا ہوگا بلکہ عوام کے مسائل پر بھی ان کی نظر گئی ہوگی، اس لیے وہ اسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں شیوراج حکومت کے لیے دردِ سر بن سکتے ہیں۔

آج یاترا کے اختتام کے ساتھ ہی دگوجے سنگھ نے بی جے پی پر تنقید کی شروعات بھی کر دی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہندوتوا مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ٹرم ہے۔‘‘ یہ بیان تو بس شروعات ہی ک ہے کیونکہ خبریں تو یہاں تک ہیں کہ نرمدا گھوٹالہ پر بھی وہ کوئی بڑا انکشاف کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی ’ویاپم‘ جیسے گھوٹالہ اور ریاست میں کسان مخالف پالیسی و بے روزگاری کی لگاتار بڑھتی ہوئی شرح شیوراج حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے اور اس کے تئیں عوام میں ناراضگی بھی خوب ہے۔

ناراض صرف عوام نہیں ہیں، بی جے پی کارکنان اور لیڈران میں بھی پارٹی کے تئیں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پرہلاد پٹیل اور سنجے شرما جیسے لیڈروں کی ’نرمدا پوجا‘ میں شرکت کو بھی اسی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں بی جے پی لیڈران اپنی پارٹی کے تئیں دبی یا کھلی زبان میں ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت اور مدھیہ پردیش میں شیو راج حکومت کے تئیں عوام کا غصہ آسمان پر ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت جلد دگوجے سنگھ کانگریس کو مضبوطی دینے اور بی جے پی کا قلعہ منہدم کرنے کی مہم شروع کریں گے۔ مدھیہ پردیش میں باباؤں کے ذریعہ نرمدا گھوٹالہ یاترا نکالے جانے کا اعلان اور پھر شیو راج کے ذریعہ پانچ باباؤں کو وزیر بنائے جانے کی پیشکش کے بعد شروع ہوئے ہنگامے نے پہلے ہی بی جے پی کی نیند حرام کر رکھی ہے۔

دگوجے کی نرمدا یاترا کو اشوک گہلوت اور احمد پٹیل جیسے کانگریس کے سینئر لیڈران نے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کی شعلہ بیان لیڈر اوما بھارتی نے بھی خط لکھ کر انھیں مبارکباد پیش کی ہے۔ اوما بھارتی نے تو اپنے خط میں دگوجے کو ’بھائی صاحب‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ وہ ان کے ’بھنڈارے‘ میں شامل ہونا چاہتی تھیں لیکن چمپارن میں ایک تقریب کے سبب شامل نہیں ہو سکیں گی۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ بعد میں وہ ان سے ملاقات کریں گی اور آشیرواد لیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Apr 2018, 5:32 PM