اپوزیشن جماعتوں کو فرضی ووٹنگ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت: دگ وجے
کانگریس کے انڈیا اتحاد کی لڑائی نریندر مودی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد اس سوچ اور نظریے کے خلاف کھڑا ہے جو سماج اور ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن دگ وجے سنگھ نے فرضی ووٹنگ کو بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور جو بھی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے لڑنا چاہتی ہے اسے اس چیلنج کو سنجیدگی سے لینا چاہئے بی جے پی کو شکست دینے کے لیے جمعہ کو چھوٹی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر سنگھ نے کہا کہ آج ملک کے آئین اور جمہوریت کو بچانے کی ضرورت ہے،۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے والی طاقتوں اور آر ایس ایس جن سنگھ کے نظریے کوشکست دینے کی ضرورت ہے لیکن فرضی ووٹنگ کا جو میکنزم انہوں نے تیار کیا ہے اسے توڑنے کی ضرورت ہے اور اگر اس میکنزم کو مل کر ختم کیا جاتا ہے تو 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینا آسان ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس کے انڈیا اتحاد کی لڑائی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد اس سوچ اور نظریے کے خلاف کھڑا ہے جو سماج اور ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اس سوچ کی انتہا ہے اور جو بھی سیاسی جماعت بی جے پی کے خلاف لڑنا چاہتی ہے اسے ووٹر لسٹ میں جعلی ووٹروں کو شامل کرنے کے بی جے پی کے طریقہ کار سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اس طریقہ کار کو ختم کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جب کانگریس لیڈر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے حق میں ہیں، مسٹر سنگھ نے کہا کہ وہ بیلٹ پیپر کے ووٹنگ کرانے کے نہیں بلکہ وہ ووٹنگ میں وی وی پیڈ کو لازمی قرار دینے کے حق میں ہیں تاکہ جعلی ووٹنگ کو روکا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جعلی ووٹنگ بہت خطرناک ہے اور اسے روکنے کے لیے ہی کام کرنا ہے تاکہ صحیح ووٹنگ ہو اور بی جے پی کو شکست دی جاسکے۔
چھوٹی بی جے پی مخالف جماعتوں کے اتحاد کے کنوینر یوگیندر یادو نے کہا کہ یہ اجلاس دن بھر چلا جس میں ملک بھر سے 500 سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی۔ کنونشن میں 20 ریاستوں سے 18 چھوٹی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی جن کا مقصد صرف بی جے پی کو شکست دینا ہے اورانہیں کسی طرح سے الیکشن نہیں لڑنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں 50 سے زائد چھوٹی بڑی تنظیموں کے عہدیدار آئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔