کشمیر میں میڈیا پر بَندش کو لے کر پریس کونسل میں اختلافات ظاہر

پریس کونسل کے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ کونسل کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس سی. کے. پرساد نے حال میں سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ دائر کیا ہے، اس پر انھوں نے کمیٹی میں کوئی میٹنگ ہی نہیں کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جموں و کشمیر میں بدلے حالت اور کشمیر میں لگاتار جاری پابندیوں میں میڈیا پر بھی قدغن کو لے کر پریس کونسل کے تازہ رخ پر کونسل میں اختلافات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ کمیٹی کے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ پریس کونسل کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس سی. کے. پرساد نے حال میں سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے، اس پر انھوں نے کمیٹی میں کوئی میٹنگ ہی نہیں کی۔ اراکین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے کشمیر میں میڈیا پر لگی پابندی کے خلاف 10 اگست کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اسی عرضی میں مداخلت کرنے کی اجازت دینے اور کونسل کو بھی ایک فریق بنانے کی گزارش کرتے ہوئے پریس کونسل کے سربراہ نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے۔ پریس کونسل چیئرمین کے اس قدم پر کونسل کے دوسرے اراکین کا کہنا ہے کہ ان کے اس قدم سے ادارے کا اعتماد کم ہوا ہے۔


پریس کونسل کے رکن اور پریس ایسو سی ایشن کے چیئرمین جے شنکر گپتا نے پریس ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری اور پریس کونسل کے رکن سی. کے. نائیک کے ساتھ ہفتہ کے روز ایک بیان جاری کر کہا کہ پریس ایسو سی ایشن نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنے میں پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین کی یکطرفہ کارروائی پر سنگین رخ اختیار کیا ہے۔ گپتا نے چیئرمین کی درخواست کو ’کافی خطرناک‘ بتاتے ہوئے کہا کہ کونسل کو اس طرح کے سنگین معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ پریس کونسل کی متفقہ رائے نہیں ہے۔ کمیٹی میں اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ جے شنکر گپتا نے کہا کہ چیئرمین کو اگر اتنی جلدی تھی تو انھیں اس ایشو کو 22 اگست کو ہوئی کمیٹی میٹنگ کے ایجنڈے میں رکھنا چاہیے تھا۔ گپتا نے کہا کہ چیئرمین نے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ میں سیلف ریگولیشن کی بات کی ہے، لیکن جب ایسی کوئی شکایت ہی نہیں ہے تو پھر اس سیلف ریگولیشن کی بات کہاں سے اٹھتی ہے۔

جے شنکر گپتا نے چیئرمین کے فیصلے کو ’منمانا‘ ٹھہراتے ہوئے کہا کہ پریس کونسل ایک شخص نہیں ہے، بلکہ ایک ادارہ ہے اور یہ کہ یہ حکومت کا اسلحہ نہیں بن سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پیر کو وہ پریس ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری اور پریس کونسل کے رکن سی. کے. نائیک کے ساتھ کونسل کے چیئرمین سے ملے۔ اس دوران چیئرمین نے کہا کہ حلف نامہ میں انھوں نے کہیں نہیں کہا کہ وہ میڈیا پر پابندی کے حق میں ہیں۔ گپتا نے بتایا کہ اس ایشو پر 27 اگست کو پریس ایسو سی ایشن کی ایک میٹنگ طلب کی گئی ہے۔


کونسل کے ایک دیگر رکن نے بتایا کہ دہلی کے رکن اس عرضی کے خلاف ہیں، وہ چیئرمین کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ رکن نے بتایا کہ یہ ایشو میٹنگ کے ایجنڈا میں نہیں تھا اور چیئرمین نے غیر روایتی طور سے بھی کسی کو مطلع نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ضابطہ کہتا ہے کہ اس طرح کے کسی بھی فیصلہ میں کونسل کو مطلع کیا جانا چاہیے۔ رکن نے یہ بھی کہا کہ یہ چیئرمین کا انفرادی نظریہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ پریس کونسل کا نظریہ نہیں ہے۔ چیئرمین کا قدم پریس کونسل ریگولیشن 1979 کے اصول 8 کی خلاف ورزی ہے۔ بتا دیں کہ ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور انڈین وومنس پریس کور کشمیر میں مواصلاتی خدمات پر پابندی کی تنقید کر چکے ہیں۔

وہیں اس معاملے پر پریس کونسل کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس سی. کے. پرساد کا کہنا ہے کہ اراکین سے مشورہ اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ درخواست 15 دن قبل داخل کی گئی تھی۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں اگلے ایک دو دن میں ہی جانا تھا تو کونسل کی میٹنگ بلانا ممکن نہیں تھا۔ اراکین کو کیوں اس بارے میں نہیں بتائے جانے کی وجہ پوچھے جانے پر جسٹس پرساد نے کہا کہ اس طرح کے فوری امور میں چیئرمین کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ لے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر بار کونسل کی میٹنگ طلب کی جائے۔ مداخلت کی درخواست میں قومی مفاد کا تذکرہ کرنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’’اس پر ہر کوئی اپنا مطلب دینے کے لیے آزاد ہے، میں اس کا کوئی مطلب نہیں بتانے جا رہا ہوں۔‘‘


واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں اپنے حلف نامہ میں چیئرمین نے کہا ہے کہ ’’پریس کونسل کے مطابق صحافیوں کو قومی، سماجی اور انفرادی مفادات کے معاملوں میں رپورٹنگ کے دوران سیلف ریگولیشن رکھنا چاہیے۔ اس عرضی کا مقصد آزادانہ رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کے اختیارات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اس لیے پریس کی آزادی اور ملکی مفاد میں عدالت کی میں مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Aug 2019, 12:10 PM