فاروق عبداللہ کو نظر بندی سے نہیں ملی نجات، مزید 3 ماہ رہیں گے بند!

فاروق عبداللہ پر 16 ستمبر کو پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا تھا۔ انہیں 5 اگست کو آئین ہند کی دفعہ 370 منسوخ کیے جانے کے بعد ان کے ہی گھر میں نظربند کیا گیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جو رواں برس کے 16 ستمبر سے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت اپنی رہائش گاہ پر نظربند ہیں، فی الحال انھیں آزادی ملتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان کی نظر بندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 82 سالہ فاروق عبداللہ کی نظربندی میں تین ماہ کی توسیع کی گئی ہے اور وہ اگلے احکامات تک اپنی رہائش گاہ پر ہی نظربند رہیں گے۔

واضح رہے کہ فاروق عبداللہ پر 16 ستمبر کو پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا تھا۔ انہیں 5 اگست، جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 منسوخ کی تھی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا، کو اپنی رہائش گاہ پر نظربند کیا گیا تھا۔


حکومت نے فاروق عبداللہ پر پی ایس لگانے کے ساتھ ہی ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا تھا۔ فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کا اطلاق اس وقت کیا گیا تھا جب ایم ڈی ایم کے لیڈر وائیکو نے سپریم کورٹ میں ہیبیس کارپس کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ عدالتی نظام میں حبس بے جا یا ہیبیس کارپس کی درخواست کے تحت لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر عدالت میں پیش کرنا ممکن نہ ہو تو یہ بتانا لازمی ہوتا ہے کہ وہ شخص کہاں ہے۔

واضح رہے کہ پی ایس اے کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ایک ’غیرقانونی قانون‘ قرار دیا ہے۔ اس کے تحت عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم تین ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اُن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔


نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے رواں برس کے اپریل میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر نیشنل کانفرنس کوحکومت ملی تو پبلک سیفٹی ایکٹ کو ہٹایا جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر ہمیں حکومت ملی تو ہم پبلک سیفٹی ایکٹ کو ہٹائیں گے اور پھر کسی بھی ماں کو اپنے بچوں کی تلاش کے لئے جیل خانوں میں نہیں جانا پڑے گا۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیر میں سبھی علاحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظر بند رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست میں انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیڈران کو سرکاری رہائش گاہوں، اپنے گھروں یا مولانا آزاد روڈ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ تاہم حکومت نے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔