پھٹی ایڑیاں، زخمی پاؤں، جسمانی تھکاوٹ کے باوجود دیکھتے بن رہا ’بھارت جوڑو یاتریوں‘ کا جوش
مہیندر یادو کے لیے یاترا میں شامل ہونا انتہائی اہم تھا کیونکہ وہ 1983 میں سابق وزیر اعظم چندرشیکھر کی بھارت یاترا کا بھی حصہ تھے۔ تب وہ 26 سال کے تھے۔
پھٹی ہوئی ایڑیاں، زخمی پاؤں، گھٹنوں اور جسم کے ہر اعضا میں درد۔ یہ وہ چیزیں ہے جو سب سے زیادہ ان پدیاتریوں میں نظر آتی ہیں جنہوں نے کنیاکماری سے کشمیر تک اپنا 3,571 کلومیٹر کا سفر شروع کیا ہے۔ جسم تھکا ہوا ہے، لیکن روح تر و تازہ اور آگے بڑھنے پر آمادہ ہے۔ ان میں سے کئی نے ’مرکزی یاتریوں‘ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا تھا، پھر دھیرے دھیرے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہو لیے۔ انھوں نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران اتحاد و سالمیت کے خوب نعرے بلند کیے اور دن کے آخری میل تک ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
پانچویں دن تک ’بھارت جوڑو یاتریوں‘ نے 110 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر لیا تھا۔ یہ یاترا، جس کی قیادت کانگریس کے رہنما اور وائناڈ کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کر رہے ہیں (حالانکہ وہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ پارٹی ممبر اور کارکن کے طور پر یاترا میں حصہ لے رہے ہیں)، 8 ستمبر کو کنیاکماری سے شروع ہوئی تھی، اور ناگرکوئل سے ہوتی ہوئی 10 ستمبر کی شام کو پارسالا میں کیرالہ میں داخل ہوئی۔ یہ یاتری 29 ستمبر تک کیرالہ میں رہیں گے، جس کے بعد وہ کرناٹک جائیں گے۔
اگرچہ ملک کے طول و عرض میں چل رہی اس یاترا کا تذکرہ قدیم پارٹی کانگریس کی انتخابی قسمت کو بحال کرنے کی مشق کے طور پر کیا جا رہا، لیکن بہت سے پارٹی کارکنان پرامید ہیں کہ یہ کانگریس کے پرانے نیٹ ورکس کو دوبارہ زندہ کرے گی اور کیڈر کو مضبوطی فراہم کرے گی۔ اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل بڑی تعداد میں عام لوگ شامل ہوئے ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ انہیں (نفرت کرنے والوں کو) بدل دے گا اور ملک کو ایک ساتھ لے آئے گا۔
60 سالہ ہرمندر سنگھ مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں اور کشمیر تک پیدل چلنے کے ارادے سے یاترا میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ وفد کا حصہ نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ یاتریوں کے تین گروہوں یعنی ’بھارت یاتری‘، ’پردیش یاتری‘ اور ’اتیتھی یاتری‘ کا حصہ ہیں۔ انھوں نے سفر اور قیام کا خود انتظام کیا ہے۔ ہرمندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’’میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ یاترا مجھے اپنی طرف کتنا متوجہ کرے گی۔ ملک کی حالت مجھے پریشان کرتی ہے اور میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں اس ملک کو ایک ساتھ لانے میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘
بہار کے اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ ریاضی کے استاد وجے پرکاش سنگھ نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو ’راہل جی کی یاترا‘ کہنے پر اصرار کیا۔ پرکاش نے زور دے کر کہا کہ جواہر لال نہرو کے خاندان اور مہاتما گاندھی نے ملک کے لیے اپنی جانیں دی تھیں۔ پرکاش اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک اور پارٹی کی مدد کی جائے جس نے ہمیں وہ تمام آزادی دی جس سے آج ہم استفادہ کر رہے ہیں۔ تمام مشہور ادارے، بینک اور صنعتیں جیسے کہ نوودے اسکول، ایمس، آئی آئی ٹی اور کیندریہ ودیالیہ جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، کانگریس نے بنایا۔‘‘ پرکاش نے کہا کہ آر ایس ایس اور چند امیر تاجروں نے ملک کو ہائی جیک کر لیا ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ لوگ اس کا ادراک کریں اور ایک ساتھ آئیں۔
’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل مہیندر یادو کہتے ہیں کہ وہ تصور کر رہے تھے کہ یاترا دسمبر میں ہی شروع ہوگی۔ 3 ستمبر کو انھیں احساس ہوا کہ یاترا 7 ستمبر کو شروع ہو جائے گی۔ اتر پردیش واقع غازی پور کے باشندہ 63 سالہ مہیندر یادو نے اپنا بیگ پیک کیا اور اگلے دن قومی راجدھانی کے قریب آنند وہار کے لیے روانہ ہوا۔ اس کے بعد اس نے 5 ستمبر کو ترووننتاپورم کے لیے جنرل ڈبے کا ٹکٹ لیا۔ اس نے ناگرکوئل میں ’سوراج انڈیا‘ کے رہنما یوگیندر یادو سے ملاقات کی اور اپنے گروپ کے ایک حصے کے طور پر یاترا میں شامل ہوئے۔ ’سوراج انڈیا‘ کے کئی ممبران ’کراس کنٹری‘ یاترا کا حصہ ہیں کیونکہ وہ راستے میں کسانوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مہیندر یادو کے لیے یاترا میں شامل ہونا انتہائی اہم تھا کیونکہ وہ 1983 میں سابق وزیر اعظم چندرشیکھر کی بھارت یاترا کا بھی حصہ تھے۔ تب وہ 26 سال کے تھے۔ وہ ایک مختلف وقت تھا اور ایک مختلف قسم کا سیاسی شعور تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں پورے راستے چلا تھا۔ تب یاترا میں چند لوگ شامل ہوئے تھے، لیکن اتنے نہیں جتنے اب ہیں۔ لیکن اب آبادی بھی بڑھ گئی ہے۔ میں یاترا میں شامل ہوا کیونکہ وقت بدل رہا ہے۔ معاشرے میں اب ایک دوسرے سے محبت نہیں رہی۔ اس سے آپ کا دل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ہمارے آبا و اجداد نے ایک ایسے ملک کی تعمیر کے لیے جنگ نہیں لڑی جہاں سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں۔‘‘
یاتریوں کے مرکزی گروپ کے اندر اور باہر نکل کر یاترا کرنے والی، اور دیگر کنارے والے یاتریوں کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملا کر چلنے والی ایک خاتون کافی پرجوش نظر آ رہی تھی جس کا نام دھن لکشمی ہے۔ تلنگانہ کی رہائشی دھن لکشمی سرپنچ فورم کی ریاستی خواتین صدر بھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں تمام ریاستوں کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ ہم اس یاترا کے ذریعہ کسانوں اور خواتین کے مسائل کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کیرالہ میں زمین کی قلت ہے، لیکن لوگوں میں اتحاد ہے۔‘‘ دھن لکشمی کا ماننا ہے کہ یہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ تاریخی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھن لکشمی رواں سال کے شروع میں (3 مارچ تا 18 اپریل) تلنگانہ کے بھوڈن پوچمپلی سے مہاراشٹر کے سیواگرام تک 600 کلومیٹر پیدل چلی تھیں کیونکہ ونوبا بھاوے کی بھوڈن تحریک کی یہ 75 ویں سالگرہ کا موقع تھا۔
تروونتاپورم باشندہ اور سی پی ایم کارکن رفیق ایم، جو یاتریوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے منتظر کھڑے تھے، نے زور دے کر کہا کہ لوگوں کے لیے راہل گاندھی ایک جذبات بن گئے ہیں۔ رفیق کہتے ہیں ’’میں ریاست میں پارٹی کی حمایت نہیں کر سکتا، لیکن ہم سب نے لوک سبھا انتخابات میں اس (کانگریس) کی حمایت کی۔ ورنہ آپ کو کیسے لگتا ہے کہ پارٹی نے ریاست کی 20 میں سے 19 سیٹیں جیت لیں۔ ملک کی ترقی کے لیے کانگریس ضروری ہے اور راہل گاندھی کی شخصیت میں وہ بات نظر آتی ہے۔‘‘
رفیق تنہا نہیں تھے جو سڑک کے کنارے بھات جوڑو یاتریوں کا استقبال کرنے اور ان کا جوش بڑھانے کے منتظر تھے۔ وہاں بہت سی گھریلو خواتین، بچے، نوجوان فٹ بال کھلاڑی، بوڑھے اور جوان مرد تھے۔ وہ سبھی اس ہجوم کا حصہ بننے آئے تھے جو راہل گاندھی کی قیادت میں ان کے گھر کے قریب سے گزرنے والا تھا۔ سبھی راہل گاندھی کی اس یاترا میں خود کو شامل کرنا چاہتے تھے۔
مدھیہ پردیش سے راکیش سنگھ (بدلا ہوا نام) اس یاترا میں شامل ہوئے کیونکہ وہ اس سیاست پر یقین رکھتے ہیں جس کی نمائندگی راہل گاندھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں جہاں بھی رہوں، راہل گاندھی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے پاس سرکاری ملازمت ہے، لیکن بی جے پی مجھے لگاتار ہراساں کرتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میں کس کی حمایت کرتا ہوں۔ فی الحال، میں چھٹی پر ہوں کیونکہ میں راہل گاندھی کے ساتھ کشمیر تک چلنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے امید ہے کہ وہ ملک میں مغرب سے مشرق کی طرف جائیں گے۔ راکیش سنگھ بھی اپنی جیب سے خرچ کر کے پدیاترا میں شامل ہوئے ہیں اور ملک کو متحد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
راکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو اکٹھا کرنے میں اپنا چھوٹا سا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ملازمت موجود نہیں ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے، اور یہ سب میں اپنے گاؤں میں بھی دیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ملک کے لوگوں کو متحد کر کے بتانا ہوگا کہ مودی نے ملک کو فروخت کر دیا ہے۔ وہ مسلسل ہندو مسلم کارڈ کھیل رہے ہیں، جو صرف لوگوں کو تقسیم کرتا ہے۔ نفرت سے ملک نہیں چل سکتا۔‘‘ راکیش نے پرعزم انداز میں کہا کہ ’’ہمیں لوگوں سے بات کرنی ہے اور ان کی بات سننی ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے بات کروں گا۔ جب تک ہم یہ نہیں سنیں گے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ملک اور پارٹی کیسے ترقی کر سکتی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔