نوٹ بندی سے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچا، عدم اتفاق والا فیصلہ غیر یقینی کی طرف کر رہا اشارہ: کانگریس

کانگریس کے مطابق ’’یہ کہنا کہ کورٹ نے نوٹ بندی کو درست بتایا ہے، پوری طرح غلط ہوگا‘‘، کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی کے اثر پر کچھ بھی نہیں کہا۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش</p></div>

جئے رام رمیش

user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز نوٹ بندی پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ نوٹ بندی کو چیلنج کرنے والی سبھی عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 1-4 سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس بی وی ناگرتنا نے نوٹ بندی کو لے کر عدم اتفاق کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا 8 نومبر کا نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔ وہیں اس فیصلے پر کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نوٹ بندی کے عمل سے جڑا ہے، نہ کہ اس کے اثرات سے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ ’’یہ کہنا کہ عدالت نے نوٹ بندی کو درست بتایا ہے، پوری طرح سے غلط ہوگا۔‘‘ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی کے اثرات کو لے کر کچھ بھی نہیں کہا ہے۔

جئے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایم ایس ایم ای سیکٹر بے حال ہو گیا اور غیر منظم سیکٹر ختم ہو گیا جس سے لاکھوں لاکھ لوگ برباد ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی اپنے مقصد میں کامیاب رہی یا نہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نوٹ بندی کم کرنا، کیش لیس معیشت بنانا، نقلی نوٹ پر نکیل کسنا، دہشت گردی پر روک اور بلیک منی کے انکشاف میں کامیاب نہیں ملی۔‘‘


سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے اس تعلق سے کہا کہ فیصلے پر عدم اتفاق والا حصہ غیر یقینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چدمبرم نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا ہے، ہم اسے قبول کرنے کے لیے مجبو رہیں۔ لیکن یہ نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ اکثریت نے فیصلہ کے علم کو برقرار نہیں رکھا ہے اور نہ ہی اکثریت نے نتیجہ اخذ کیا کہ نوٹ بندی کے مقاصد حاصل کیے گئے تھے۔ چدمبرم نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے اقلیت کے فیصلے نے نوٹ بندی میں غیر آئینی عمل اور بے ضابطگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ حکومت کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ عدم اتفاق کا فیصلہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں درج مشہور عدم اتفاق میں شمار ہوگا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پیر کے روز مرکزی حکومت کے 2016 کے 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے پر مہر لگا دی۔ جسٹس ایس اے نذیر کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اکثریت سے حکومت کے فیصلے پر مہر لگائی۔ حالانکہ بنچ میں شامل جسٹس ناگرتنا کا نظریہ اکثریت سے مختلف تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔