نوٹ بندی نے صرف نقصان پہنچایا، تعریف کرنے والے سرکاری درباری: شتروگھن سنہا
بی جے پی لیڈر شتروگھن سنہا مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اکثر آواز اٹھاتے رہے ہیں اور نوٹ بندی کے تعلق سے انھوں نے وزیر اعظم کو ماہرین معیشت کی رائے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
نوٹ بندی کے دو سال مکمل ہونے کے پیش نظر جہاں ماہرین معیشت نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس فیصلہ سے ہوئے نقصانات کو منظر عام پر لایا وہیں مودی بریگیڈ نے اس کے مثبت پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ لیکن مودی بریگیڈ کی باتوں کو میڈیا اور عوام دونوں ہی اہمیت نہیں دے رہی کیونکہ نہ تو کالا دھن پر کنٹرول ہو سکا، نہ ہی بدعنوانی میں کسی طرح کی کمی ہوئی اور نہ ہی دہشت گردی کے معاملات پر قابو پایا جا سکا۔ الٹے اس فیصلے کا معیشت پر جو منفی اثرات پڑے اس کا ازالہ ہونے میں سالوں لگ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے ہی کچھ لیڈران نوٹ بندی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور پارٹی لائن سے بالکل الگ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
بی جے پی کے سینئر لیڈر شتروگھن سنہا مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں اور نوٹ بندی کے تعلق سے انھوں نے وزیر اعظم کو ماہرین معیشت کی رائے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے 8 نومبر کو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ذریعہ دیے گئے اس بیان کی بھی تعریف کی جس میں انھوں نے کہا کہ ہندوستانی معیشت بیمار نظر آ رہی ہے۔ شتروگھن سنہا نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنے تصویر شیئر کرتے ہوئے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ ’’سر جی! یہ بہت اہم ہے کہ نوٹ بندی کے اعلان کے 2 سال مکمل ہونے پر ہندوستانی عوام کو ماہرین معیشت اور حقیقی دانشوروں کی باتیں سننی اور پڑھنی چاہئیں نہ کہ چیخ چیخ کر شیخی بگھارنے والے سرکاری درباری کی۔‘‘
یہاں قابل ذکر ہے کہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے 8 نومبر کو میڈیا کے سامنے نوٹ بندی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے اور دیگر کئی بی جے پی لیڈران نے بھی نوٹ بندی کو ملک کے لیے مفید بتایا تھا۔ شتروگھن سنہا نے ان جیسے لیڈروں کو ہی ’سرکاری درباری‘ کہہ کر پکارا ہے۔
بہر حال، شاٹ گن کے نام سے مقبول شتروگھن سنہا اپنے ایک دیگر ٹوئٹ میں ملک کے بڑے ماہر معیشت کوشک بسو کے ذریعہ امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ میں نوٹ بندی پر تحریر کردہ مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ماہرین معیشت نے بھی مانا ہے کہ نوٹ بندی صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے نافذ کرنے کا خاکہ ٹھیک سے تیار کیا گیا۔ نوٹ بندی کا بازار پر کیا اثر ہوگا اس کو بھی دھیان میں نہیں رکھا گیا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’انھوں نے (کوشک بسو نے) بھی مانا ہے کہ نوٹ بندی سے متوسط، چھوٹے اور غریب فیملی کو کافی نقصان ہوا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔