جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام پر پابندی کے سبب اخبارات کی طلب میں غیر معمولی اضافہ

ضلع بڈگام میں ایک اخبار فروش کے پاس تقریباً نصف درجن اخبار خرید کر کھڑے ایک نوجوان نے بتایا کہ مقامی اخبارات سے ہی اب ہم یہاں کے حالات کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں مواصلاتی نظام پر قریب ایک ماہ سے جاری پابندی کے بیچ مقامی اخبارات بالخصوص اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ مقامی اخبارات کو ہی خبروں کا معتبر ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

وادی میں بھی باقی ماندہ دنیا کی طرح سوشل میڈیا تمام طرح کی خبروں کا ذریعہ بن گیا تھا جس کے نتیجے میں اخبارات کی مانگ میں تھوڑی کمی واقع ہورہی تھی لیکن یہاں مواصلاتی نظام ایک ماہ سے مسلسل معطل رہنے کے باعث مقامی اخبارات کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اور صبح سویرے ہی لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں چوراہوں، سڑک کے کناروں یا دکانوں کے تھڑوں پر اخبار پڑھنے میں منہمک نظر آتی ہیں۔


سری نگر کے لال چوک میں واقع پرتاب پارک میں مختلف مقامی اخبارات کے پڑھنے میں غرق لوگوں کی ایک ٹولی نے یو این آئی ارود کو بتایا کہ مواصلاتی نظام معطل رہنے سے مقامی اخبار ہی اب ہمارے لئے متعبر خبروں کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے تازہ ترین حالات و واقعات سے واقف رہتے تھے لیکن انٹرنیٹ پر گزشتہ قریب ایک ماہ سے جاری پابندی کی وجہ سے ہم اب اپنی وادی کیا اپنے علاقے کے حالات سے بے خبر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم صبح سویرے گھروں سے نکل کر مقامی اخبار خرید کر کم سے کم اپنے گرد وپیش کے تازہ حالات واقعات سے با خبر ہوجاتے ہیں'۔

لال چوک سری نگر سے تعلق رکھنے والے الطاف احمد نامی ایک اخبار فروش نے کہا کہ اخبارات کی مانگ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مقامی اخبارات کی مانگ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جن لوگوں نے مجھ سے اخبار لینا چھوڑ دیا تھا وہ اب دوبارہ میرے پاس آکر اخبار خرید تے ہیں بلکہ جو لوگ کبھی بھی اخبار نہیں پڑھتے تھے وہ بھی اخبار خریدتے ہیں‘‘۔ الطاف احمد نے کہا کہ پہلے میں اخبار خریدنے والوں کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا اب وہ لوگ میرا انتظار کرتے ہیں۔


وسطی ضلع بڈگام کے ایک اخبار فروش کے پاس کھڑے ایک نوجوان جس کے ہاتھ میں قریب نصف درجن مقامی انگریزی و اردو اخبارات تھے، نے اس نمائندے کو بتایا کہ مقامی اخبارات سے ہی اب ہم یہاں کے حالات کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مواصلاتی نظام پر پابندی کے بعد یہاں اب معتبر خبروں کا ذریعہ مقامی اخبارات ہی ہیں، قومی نیو چینلز یہاں کے حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں لہٰذا اب شاذ ونادر ہی کوئی ان کو دیکھتا ہے‘‘۔

بڈگام کے ہی ایک اخبار فروش نے کہا کہ صبح سویرے ہی اخبار خریدنے والوں جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، میرے پاس بھیڑ لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی گاہکوں کی اکثریت اردو اخبارات خریدتے ہیں۔ تاہم اگرچہ ایک طرف اخبارات کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف اخبارات کا حجم کم ہورہا ہے کیونکہ اخباروں کے لئے مواد جمع کرنا مقامی مدیراں کے لئے کارے دارد والا معاملہ بن گیا ہے۔


مدیران کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے میڈیا سنٹر تو قائم کیا ہے لیکن وہاں انتظامات نامعقول ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’'انتظامیہ کی طرف سے یہاں قائم میڈیا سنٹر میں انتظامات نامعقول ہیں، سینکڑوں صحافیوں کے لئے صرف چار کمپیوٹر سیٹ نصب کیے گئے ہیں اور انٹرنیٹ کی رفتار بھی بہت ہی سست ہے جس کے باعث کام کرنا مشکل ہورہا ہے‘‘۔ مدیراں نے مزید کہا کہ انہیں اخبارات کی اشاعت جاری رکھنے کے لئے انتہائی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ای میل دیکھنے اور خبر رساں ایجنسیوں سے خبریں حاصل کرنے کے لئے اپنے دفتر سے میڈیا سنٹر تک روزانہ کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سنٹر کے قیام کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ موجودہ وقت میں یہ ہمارے لئے آکسیجن جیسا ثابت ہورہا ہے لیکن یہ کسی بھی لحاظ سے ہمارے دفاتر میں لگے انٹرنیٹ کنکشنز کا متبادل نہیں ہے۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے صحافیوں اور اخباروں کے دفاتر میں ٹیلی فون اور انٹر نیٹ سہولیات بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

قومی و غیر ملکی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی رپورٹیں متعلقہ اداروں تک پہنچانے کے لئے میڈیا سنٹر میں کافی دیر تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا سنٹر میں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے تصویریں اور ویڈیوز بھیجنا بہت مشکل کام ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے میڈیا دفاتر کے انٹرنیٹ کنکشن بحال کرنے کے علاوہ میڈیا سنٹر میں کمپیوٹرس کی تعداد بڑھانے اور وائی فائی سہولیت دستیاب بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں کشمیر پریس کلب کا ایک وفد بھی ناظم اطلاعات سے ملاتھا اور ان سے صحافیوں اور اخبارات کے دفاتر میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔