شردھا قتل کیس میں سی بی آئی جانچ کا مطالبہ، دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل، آفتاب کا ہو سکتا آج نارکو ٹیسٹ

شردھا قتل کیس میں ایک وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے معاملے کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

شردھا قتل کیس، تصویر آئی اے این ایس
شردھا قتل کیس، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: دہلی پولیس آج شردھا قتل کیس کے ملزم آفتاب امین پونا والا کو نارکو ٹیسٹ سے پہلے کچھ ضروری پری ٹیسٹ کے لیے اسپتال لے جائے گی۔ آفتاب کی پانچ روزہ پولیس حراست منگل کو ختم ہو رہی ہے۔ دہلی پولیس روہنی کے ڈاکٹر بی آر۔ امبیڈکر اسپتال میں آفتاب کا ٹیسٹ کروانے کی تیاری کر رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق، پولیس نے اس کا نارکو ٹیسٹ کرانے کے لیے باضابطہ طور پر روہنی ایف ایس ایل سے رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ یہ پیر کو کیا جائے گا یا نہیں۔ دریں اثنا، تفتیش کاروں کو آفتاب کے فون کو اسکین کرتے ہوئے کئی منشیات فروشوں کے نمبر ملے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شبہ ہے کہ وہ گانجہ اور چرس لیتا تھا۔ اس کے فون پر ممبئی اور دہلی کے منشیات فروشوں کے رابطہ نمبر موجود ہیں، جس کی جانچ کی جا رہی ہے۔


اس کے علاوہ پولیس ٹیمیں ہماچل پردیش کے توش بھیجی گئی ہیں، کیونکہ تفتیش کے دوران پتہ چلا ہے کہ وہ شردھا کے ساتھ کافی عرصے تک وہاں مقیم تھا۔ آفتاب نے 18 مئی کو اپنی ساتھی شردھا واکر کا گلا دبا کر قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش کے کئی ٹکڑے کر دیئے تھے۔ پولیس نے کہا کہ چھتر پور میں جہاں آفتاب کرائے کے مکان میں رہ رہا تھا وہاں کرائم ٹیم اور فارنسک ماہرین نے قریب سے معائنہ کیا ہے اور گھر سے کئی چیزوں کو ضبط بھی کیا ہے۔

افسر نے کہا کہ آفتاب کے انکشاف کے بعد، کئی جگہوں پر سرچ آپریشن کیے گئے ہیں، جن میں کچھ جنگلاتی علاقے بھی شامل ہیں، جہاں سے کئی ہڈیاں قبضے میں لی گئی ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ہڈیاں شردھا کی ہیں یا نہیں، ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے اس کے والد اور بھائی کے خون کے نمونے لیے گئے ہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے میں 15 دن لگیں گے۔


دوسری طرف ایک وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے شردھا قتل کیس کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ 6 ماہ پرانا ہے۔ ایسے میں انتظامی عملے کی کمی، شواہد اور گواہ تلاش کرنے کے لیے مناسب تکنیکی اور سائنسی آلات کی کمی کی وجہ سے پولیس اس کیس کی مؤثر تفتیش نہیں کر سکتی۔ ایسے میں سی بی آئی سے انکوائری کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔