تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا دہلی کا تاریخی ’اُردو بازار‘، کسی کو فکر نہیں...
عالمی شہرت یافتہ اُردو بازار جو کسی زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، جہاں ہر روز شعری و ادبی محفلیں جمتی تھیں، وہ دن بہ دن آگ کی بھٹیوں، مرغ و مچھلی فرائی کی دکانوں میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے
نئی دہلی: ’دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب...‘، میر تقی میر سے منسوب شعر کا یہ مصرعہ ایک تاریخی سچائی ہے۔ شاہجہاں آباد تعمیر ہوا تو شاہجہاں نےعرب و ایران اور ایشیائی ممالک کے صاحب علم و ہنر کو دعوت دی کہ یہاں آکر آباد ہوں۔ انہیں دس ہزاری، بیس ہزاری کا اعزاز اور اکرم سے نوازا جائے گا۔ چناچہ دلّی دنیا بھر کی مختلف ممتاز انسانی نسلوں کے اجتماع سے معمور ہے۔ یہاں کے گلی، محلّے، حویلیاں، بازاروں کے نام انہیں خصوصیات سے وابستہ ہیں۔ ایسا ہی ایک بازار جامع مسجد سے متصل اردو بازار ہے۔ جو کسی زمانے میں اپنی منفرد شناخت رکھتا تھا۔ جہاں سے ملک بھر کے مشہور و معروف اخبارات، رسائل، کتابیں، میگزین شائع ہوا کرتے تھی۔ تاہم علمی و ادبی، محفل و مجالس کا خصوصاً اہتمام ہوتا تھا۔ ان ادبی محفلوں میں مجاہد آزادی اور نامور شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب یہ علم کا گہوارہ اردو بازار کتاب کی دکانوں سے مچھلی، مرغ فرائی کی دکانوں میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
کتنے ہی کتب خانے بند ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ سسکیاں لے رہے ہیں۔ اس تعلق سے کتب خانہ انجمن ترقی اردو کے مالک نظام الدین نے قومی آواز کے نمائندہ کو بتایا کہ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب اردو بازار میں قطار سے کتب خانے آباد تھے کتاب پڑھنے والوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ نامور ادیب شاعر، افسانہ نگار، صحافی، خطاط، پینٹر اور یہاں تک کے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی یہاں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ علم کے پروانے نئی نئی کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اپنی علمی پیاس کو کتابیں پڑھ کر بجھاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آج حالات یہ ہیں لوگوں میں کتاب پڑھنے کا ذوق روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ علم پروری کی بجائے شکم پروری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا کتب خانہ 1939 میں قائم ہوا تھا۔ جس کو آج چوتھی پیڑھی چلا رہی ہے۔ ہمارے کتب خانہ میں ایک ہی موضوع پر معتدد کتابیں دستیاب ہیں۔ دلّی شہر پر ہمارے یہاں 360 کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تواریخ، طبّی اور اُردو ادب کی ہر کتاب ہمارے یہاں دستیاب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اُردو کی نادر و نایاب کتابیں خریدنے کی غرض سے جاپان، چین، انڈونیشیا، دبئی، امریکہ، اور خلیجی ممالک تک سے عاشقان اُردو ہمارے کتب خانہ پر آتے ہیں اور اُردو کی کتابیں خرید کر لے جاتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے یہاں آزادی سے پہلے کی اُردو، ہندی، انگریزی زبان میں کتابیں آج بھی موجود ہیں، جو ریسرچ اسکالر کے لیے ایک قیمتی خزانے سے سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اُردو کے لیے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، دہلی اُردو اکیڈمی جیسے ادارے اردو کی کتابوں کو کم قیمت پر شائع کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی اُردو کی کتابوں کی طرف لوگ توجہ نہیں دے رہے۔
اُردو بازار کی موجودہ صورتِ حال پر شعبہ اردو ذاکر حسین دہلی کالج کے ڈاکٹر عبدالعزیز جو پرانی دلی کی تاریخ اور جغرافیہ پر اچھی گرفت رکھتے ہیں انہوں نے تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ اردو بازار میں شعرا، ادیب، ادب کے قاری، قاری، پبلیشر، محقق، نقاد اکثر گھومتے نظر آتے تھے۔ یہ علاقہ صاف ستھرا رہتا تھا نہ شوروغل نہ بھاگ دوڑ، دلّی کے دوسرے تجارتی علاقوں سے بالکل مختلف امتیازات کا حامل تھا، اردو بازار کٹرا نظام الملک کے باہری کونے سے شروع ہو کر دوسرے کنارے پر ختم ہوتا تھا۔
کتب خانہ انجمن ترقی اردو اس سے آگے ایک کتب خانہ لاجپت رائے اینڈ سنز تھا۔ ایک کتب خانہ علمی کتب خانہ اور مولانا رفیق کتب خانہ تھا۔ مولانا رفیق کتب خانے کے مالک مددگار پبلیشر مصنف پارسل لے جانے والے منیجر، طباعت و اشاعت کے ذمہ دار سب کچھ تھے۔ اکیلی جان سے سب کچھ کرتے اکثر مذہبی کتابیں شائع کرتے اور فروخت کرتے تھے ان سے اگلی دکان مولانا احمد سعید کا کتب خانہ تھا۔ مولانا سیاسی سرگرمیوں میں ممتاز تھے وہ کونسلر بھی رہے، کانگریسی تھے، ناول نگار تھے نثر خوبصورت انداز میں لکھتے تھے، ان کے ناول اور خطوط کا مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے کا کتب خانہ نظریہ تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُردو بازار میں حالی پبلیکیشن ہاؤس بھی تھا جہاں اب مرغ مچھلی فرائی ہوتی ہے۔ اس سے اگلی دکان مکتبہ جامعہ ہے جو تاحال باقی ہے، دیکھیے کب تک، اسی کے برابر میں جماعت اسلامی ہند کا کتب خانہ ہے۔ اس کے برابر میں سنگم کتاب گھر تھا جہاں اب جوتے فروخت ہوتے ہیں۔ نہ جانے کتنے کتب خانے یہاں آباد تھے۔ اگر سبھی کا ذکر کیا جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اردو بازار کی سڑک پر بعد نمازعشاء بڑے چھوٹے جلسے ہوتے تھے، استاد رسا بے خود دہلوی کی یاد میں مشاعرہ بھی اسی سڑک پر ہوتا تھا جس میں اس زمانے کے تمام ممتاز شعراء شرکت کرتے تھے اور آل انڈیا ریڈیو سے براہ راست نشر ہوتا تھا۔ آخر میں انہوں کہا کہ جامع مسجد کے اردگرد اردو پارک، آزاد پارک، ایڈورڈ پارک، پائے والا اسپتال، تعلیمی مرکز، افضل پیشاوری کا آزاد ہند ہوٹل، مکتبہ شاہراہ، کیفی پبلک لائبریری، دارالمصنفین، دفتر خاکسار، دفتر مسلم لیگ، دفتر خاتون مشرق، وغیرہ سب گزرے زمانے کی کہانیاں بن گئے۔ اُردو بازار رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
طہٰ نسیم، جو کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور صحافی بھی۔ اور پرانی دلّی کی تاریخ پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اُردو بازار لال قلعہ کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ جو بعد میں جامع مسجد سے متصل آباد ہوا اور اب بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1936 میں خواجہ حسن نظامی نے اس بازار کا نام اُردو بازار رکھا تھا۔ اسی اُردو بازار میں ان کا اپنا خود کا کتب خانہ موجود تھا۔ کسی زمانے میں یہ بازار جگت سنیما سے لے کر جامع مسجد گیٹ نمبر ایک تک پھیلا ہوا تھا بڑے بڑے علماء کرام نے یہاں اپنے کتب خانے قائم کیے ہوئے تھے۔ لیکن آج اُردو بازار کی حالت نا گفتبہ ہے۔ آج لوگوں میں اُردو کی کتابوں کو پڑھنے کا ذوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بیس روپے کا پان تو خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن پندرہ روپے کا رسالہ خریدنے میں انہیں شرم آتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کتب خانہ رشیدیہ اور دوسرا کتب خانہ ابو الحسن ندوی بند ہو گئے ہیں۔ اُردو بازار عربی، فارسی اور اُردو کی کتابوں کے لیے عالمی شناخت رکھتا ہے۔ جو کتاب پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ملتی وہ کتاب اُردو بازار میں مل جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میری دکان پر جاپان، برطانیہ، کناڈا، ترکی تک سے اُردو کی کتابوں اور رسالوں کی تلاش میں آتے ہیں۔ آج ہمیں اپنے بچوں کو اُردو پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُردو کی اہمیت نئی نسل میں باقی رہے۔ اُردو بازار صرف کتابوں کا بازار نہیں بلکہ دلّی کی تہذیب و ثقافت کا امین ہے اور اسکو قائم رکھنا ہم دلّی والوں کی ذمہ داری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔