دہلی تشدد: انسانی ڈھال بن کر مسلمانوں نے کروائے ساوتری کے ’سات پھیرے‘
شادی کے اختتام پر ساوتری کے والد نے کہا، ’’آج کوئی رشتہ دار میری بیٹی کی شادی میں شریک نہیں ہو پایا لیکن ہمارے مسلمان پڑوسیوں نے شرکت کی، یہ سب ہمارا خانددان ہیں‘‘
نئی دہلی: قومی راجدھانی کے شمال مشرقی علاقہ میں سی اے اے کے نام پر ہونے والے اس تشدد کا لوگوں پر بڑے پیمانے پر اثر ہوا ہے۔ تشدد کی آگ میں متعدد خاندان مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور درجنوں افراد نے اپنی جان گنوا دی اور بے شمار لوگوں کی زندگی تاریک ہو گئی۔
تشدد سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بہت سے خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں محفوظ مقام پر پناہ لینا پڑی۔ تشدد کا اثر ان شادیوں پر بھی پر پڑا جن کی تقاریب علاقہ میں منعقد ہونی تھیں لیکن فساد کی وجہ سے انہیں ملتوی کر دینا پڑا۔ اس تشدد کی شروعات کسی بھی طرح ہوئی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقصان دونوں فرقوں کا ہوا ہے اور انسانیت شرمسار ہوئی ہے۔ دریں اثنا ایسے بھی واقعات رونما ہوا جو تشدد کی بھڑکتی آگ میں سکون دینے والے ہیں اور انسان دوستی کو فروغ دیتے ہیں۔
اسا ہی ایک واقعہ 23 سالہ ساوتری پرساد کا ہے جوکہ مسلم اکثریت علاقہ کی رہائشی ہے اور اس کی شادی کے پورا ہونے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ساوتری کی شادی 25 فروری بروز منگل کو طے تھی اور پیر کے روز اس کے ہاتھوں پر مہندی تو لگ گئی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ شادی ہو بھی پائے گی یا نہیں، کیوں کہ علاقہ میں تشدد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔
ساوتری کا گھر چاند باغ علاقہ میں ہے جہاں اتوار کے روز تشدد شروع ہوا تھا اور اگلے دو تین دنوں تک یہ آگ ٹھنڈی نہیں ہو سکی۔ ساوتری کی شادی گلشن کمار نامی نوجوان سے طے ہوئی تھی اور دنوں خاندان شادی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ساوتری کو جب تشدد کا پتہ چلا تو وہ زار و قطار رونے لگی۔ ایسے ماحول میں خاندان نے شادی کو مؤخر کرنے کا فیصلہ لیا لیکن پڑوس میں رہنے والے مسلم طبقہ کے لوگ آگے آئے اور ساوتری کو اپنی بیٹی بتاکر کہا خاندان سے کہا کہ انہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں نے جب ہمت بڑھائی کو ساوتری کے والد بھودے پرساد نے بارات کو مدعو کر لیا۔ اس کے بعد مسلمان ساوتری کی شادی میں انسانی ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔
شادی کی تقریب کو پہلے باہر منعقد کئے جانے کا منصوبہ تھا لیکن حالات کے پیش نظر تمام رسومات کو گھر پر ہی ادا کرنی پڑیں۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں نظر آ رہا تھا، متعدد گھروں اور کاروں کو آگ لگا دی گئی تھی اور دکانیں لوٹ لی گئی تھیں۔ ایسے ماحول میں پڑوسی مسلمانوں کی نگہبانی میں ساوتری اور اس کے دولہا کو ایک دوسرے کو مالائیں پہنائیں اور اگنی کے گرد سات پھیرے لئے۔ اس کے بعد بیٹی کو رخصت کرنے کے لئے سبھی باہر تک بھی آئے۔
ساوتری کے پڑوسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے سبھی لوگ محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی خطرناک صورتحال میں بھی ساوتری کی شادی ممکن ہو پائی۔
پڑوس کی مسلم خاتون ثمینہ بیگم نے اس موقع پر کہا، ’’ہمارا دل درد سے بھر گیا، کون چاہتا کہ اس کی بیٹی ایسے موقع پر روئے جبکہ اس کے سب سے زیادہ خوش ہونے کے لمحات ہوں!‘‘
شادی کے دوران دوسرے لوگوں پہریداری کرنے والے عامر ملک نے کہا، ’’ہم یہاں اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم ان کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں اور ہمیشہ ان کا ساتھ دیں گے۔‘‘
شادی کے اختتام پر بھودے پرساد نے کہا، ’’آج ہمارا کوئی رشتہ دار میری بیٹی کی شادی میں شریک نہیں ہو پایا لیکن ہمارے مسلمان پڑوسیوں نے شرکت کی۔ یہ سب ہمارا خانددان ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے اس تشدد میں ہلاکتوں کی تعداد 42 تک پہنچ گئی ہے۔ حالات اب بھی سازگار نظر نہیں آ رہے لیکن جب تک محلہ کی بیٹیوں کی شادیاں ان کے پڑوسی بلاتفریق مذہب کراتے رہیں امن کی امید زندہ رہے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔