’ایسا لگتا ہے کہ انصاف کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا‘ جج کے تبادلے پر کانگریس برہم

دہلی تشدد کی سماعت کرنے والے جج مرلیدھر کے تبادلہ پر کانگریس نے کہا کہ بی جے پی حکومت اور لیڈران کو یاد رکھنا چاہئے کہ ملک کے عوام نے انہیں عوام کو ڈرانے، دھمکانے اور غلام بنانے کےلئے منتخب نہیں کیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

دہلی تشدد کی سماعت کرنے والے جج مرلیدھر کے ٹرانسفر پر کانگریس پارٹی نے سوالات اٹھائے ہیں۔ دہلی میں واقع کانگریس پارٹی کے صدر دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ ملک میں انصاف کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ بی جے پی کے زہریلے اور اشتعال انگیز بیانات دینے والے رہنماؤں کے خلاف سماعت کر رہے دہلی ہائی کورٹ کے سینئر جج ایس مرلیدھر کا راتوں رات تبادلہ کردیا گیا۔‘‘

سرجے والا نے کہا، ’’عدلیہ کے خلاف بی جے پی کا دباؤ اور انتقام کی سیاست کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ کل دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلیدھر اور تلونت سنگھ نے نے فسادات میں بی جے پی رہنماؤں کے کردار کے پیش نظر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور دہلی پولیس کو آئین کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم دیا۔‘‘


انہوں نے کہا ، ’’جب ججوں نے بی جے پی کے مرکزی وزیر، رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی اور کپل مشرا کی اشتعال انگیز ویڈیوز دکھائیں تو مرکزی حکومت کے وکیل اور مودی کے پسندیدہ تشار مہتا جی نے یہ دلیل دے ڈالی کہ ’اس وقت نامزد مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کرنا مناسب وقت نہیں ہے۔‘‘

سرجے والا نے کہا، ’’جسٹس ایس مرلیدھر کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے مذکورہ ویڈیو کی بنیاد پر 24 گھنٹوں میں آئی پی سی کے مطابق بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، بی جے پی رہنماؤں کو بچانے کے لئے وزارت انصاف نے راتوں رات جسٹس ایس مرلیدھر کا تبادلہ کر دیا۔ پورا دیش حیران ہے لیکن مودی-شاہ حکومت بددیانتی، آلودہ ذہنیت والی ہے۔‘‘


کانگریس کے ترجمان نے کہا ، ’’ایک مضبوط اور آزاد عدلیہ اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ عدلیہ نے ہمارے ملک کی تاریخ کے اہم مواقع پر اس ملک کے شہریوں اور اس کے آئین کا تحفظ کیا ہے۔ مگر یہ پہلا موقع ہے جب کوئی حکومت طاقت کے نشے میں اتنی چور ہے کہ وہ آئین، مقننہ اور اس عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہی ہے۔‘‘

سرجے والا نے کہا، ’’بی جے پی کا عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور انتقام لینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گجرات فسادات میں مودی شاہ کے خلاف وکیل رہے سپریم کورٹ کے نامور وکیل گوپال سبرامنیم کی تقرری کو مودی حکومت نے زبردستی روک دیا گیا تھااور اور سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کی پروا نہیں کی تھی۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’مودی حکومت نے جج عقیل قریشی کی تقرری کو بھی روک کر رکھا، جنہوں نے امت شاہ کو سنہ 2010 میں جیل بھیجا تھا، جبکہ یہ سفارش سپریم کورٹ کالجیم نے حکومت کو کے پاس بھیجی تھی۔‘‘


دریں اثنا، کانگریس نے وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے تین سوال پوچھے:

  • کیا آپ کو یہ خوف تھا کہ اگر بی جے پی لیڈران کی آزادانہ اور غیرجانبدانہ تحقیقات کی گئی تو دہلی کے تشدد، دہشت اور افرا تفری کا پردہ فاش ہو جائے گا؟
  • غیر جانبادار اور موثر انصاف کی فراہمی کو روکنے کے آپ کتنے ججوں کا تبادلہ کریں گے؟
  • کیا آپ کے پاس اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں کے زہریلے بیانات کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں تھا، اس لئے آپ نے اس جج کا تبادلہ جس نے پولیس کو آپکی پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف تفتیش کا حکم دیا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔