دہلی میں فضائی آلودگی: ہوا کا معیار بدستور خراب، اے کیو آئی 271 سے متجاوز
دہلی میں فضائی آلودگی نے زندگی دشوار کر دی ہے، جہاں آج صبح اے کیو آئی 271 ریکارڈ کیا گیا۔ دیوالی سے قبل آلودگی مزید بڑھ گئی ہے، جس سے شہریوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے
دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں سردیوں کے آغاز سے قبل ہی ہوا میں زہر بھر چکا ہے۔ صبح 5:30 بجے دہلی کے مختلف علاقوں میں ہوا کے معیار کی پیمائش (اے کیو آئی) 271 سے زیادہ درج کی گئی ہے۔ اسی طرح شہر کے آلودہ ترین علاقے آنند وہار میں صبح کے وقت اے کیو آئی 352 تک پہنچ گیا تھا، جس میں 6 بجے معمولی کمی آئی اور یہ 351 پر آ گیا، تاہم یہ معیار انتہائی خراب شمار ہوتا ہے۔
فضائی آلودگی کی اس صورتحال سے دہلی کے شہری شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ صحت مند افراد کو بھی آنکھوں میں جلن، کھانسی، اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آلودگی کے باعث دہلی مستقل طور پر ہندوستان کے سب سے آلودہ شہروں کی فہرست میں شامل ہے، جہاں یہ تیسرے نمبر پر ہے۔
فضائی آلودگی کا اثر دہلی کے مختلف علاقوں میں یکساں ہے۔ آج صبح دہلی کے علی پور کا اے کیو آئی 302، براڑی کا 287 اور دوارکا کا 267 ریکارڈ کیا گیا، جس سے ان علاقوں میں بھی ہوا انتہائی خراب درجے میں رہی۔ ماہرین کے مطابق، دہلی این سی آر میں فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہمسایہ ریاستوں، خاص طور پر ہریانہ اور پنجاب میں فصلوں کی باقیات یا پرالی کو جلانا ہے۔ ہر سال اکتوبر کے آخر اور نومبر کے آغاز میں، دیوالی کے موقع پر آتش بازی اور پرالی جلانے کے باعث ہوا میں آلودگی کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے، جس سے بچے اور بزرگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں دیوالی کے قریب آلودگی میں کمی کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں آتش بازی پر پابندی بھی شامل ہے، لیکن اس کے باوجود شہری قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آتش بازی کرتے ہیں، جس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کی جانب سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2021 سے ہر اکتوبر میں فضائی آلودگی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
دہلی کے عوام سانس لینے میں مشکل، صحت کے مسائل اور روزمرہ کی زندگی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے متعدد پالیسیاں نافذ کی جا رہی ہیں، تاہم آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔