دہلی: مہرولی علاقہ میں منہدم کی گئی 600 سالہ قدیم مسجد کے مقام پر نماز ادا کرنے کی درخواست، ہائی کورٹ سے مسترد
دہلی ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں شبِ برات کے موقع پر مہرولی میں منہدم کی گئی 600 سالہ قدیم مسجد اخودنجی کے مقام پر نماز ادا کرنے اور قبروں پر جانے کی اجازت طلب کی گئی تھی
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں شبِ برات کے موقع پر مہرولی علاقے میں حال ہی میں منہدم کی گئی 600 سالہ قدیم مسجد اخودنجی کے مقام پر نماز ادا کرنے اور قبروں پر جانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ مسجد اخودنجی، جہاں مدرسہ بحرالعلوم اور قابل احترام شخصیات کی قبریں تھیں کو فروری کے اوائل میں مسمار کر دیا گیا تھا۔ ڈی ڈی اے اور محکمہ جنگلات نے مل کر یہ کارروائی انجام دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسجد سلطان شمس الدین التمش کے دور کی تھی اور اسے مسجد جنات بھی کہا جاتا تھا۔ واضح رہے کہ انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے یہاں موجود ایک مندر کو بھی منہدم کر دیا تھا۔
جسٹس پروشیندر کمار کورو نے دہلی وقف بورڈ کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ عدالت اس مرحلے پر کسی بھی قسم کی ہدایت جاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکتھی، کیونکہ معاملہ سال 2022 سے ہی عدالت میں زیر التوا ہے۔
جسٹس کورو نے کہا کہ یہ جگہ اس وقت دہلی ترقیاتی اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے قبضے میں ہے، اور عدالت نے پہلے ہی اس علاقے کے لیے جہاں مسجد تھی، جمود کو برقرار رکھنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ نمازوں اور قبرستان میں بلا رکاوٹ داخلے کی درخواست ایک لازمی پابندی کی فرمائش ہے، جسے وہ اس وقت قبول کرنے کے لئے راضی نہیں ہے۔
دہلی وقف بورڈ کی انتظامی کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شمس خواجہ نے شب برات کی اہمیت کے پیش نظر درخواست کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ 600 سال پرانی مسجد کو ڈی ڈی اے حکام نے غیر قانونی طور پر منہدم کر دیا تھا۔
تاہم، ڈی ڈبلیو بی کے وکیل نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد کی عمر اور اس کی وقف جائیداد کی حیثیت سے اختلاف کیا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست مسترد کر دی۔
قبل ازیں، عدالت نے ڈی ڈی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ خصوصی طور پر اس علاقے پر جمود برقرار رکھے جہاں مسجد واقع تھی، لیکن واضح کیا کہ یہ حکم ڈی ڈی اے کو ملحقہ علاقوں پر کارروائی کرنے سے نہیں روکتا۔
دہلی وقف بورڈ کی انتظامی کمیٹی کا الزام ہے کہ مسجد اور مدرسے کو مسمار کرنے کا عمل لاپرواہی سے کیا گیا، جس سے امام اور ان کے خاندان کو پناہ نہیں ملی کیونکہ ان کی جھونپڑی بھی تباہ ہو گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔