دہلی پولس ظفرالاسلام خان کو تھانہ لے جانے میں ناکام رہی کیونکہ...
جب دہلی پولس ظفرالاسلام خان کے گھر پہنچی تو اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی و سماجی افراد ان کے خلاف کھڑے ہو گئے جس کے بعد پولس کو اپنا قدم پیچھے کی طرف کھینچنا پڑا۔
بدھ کے روز افطار سے ٹھیک پہلے دہلی پولس ظفرالاسلام خان کو پوچھ گچھ کے لیے تھانہ لے جانے کے مقصد سے ان کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد جیسے ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا ہے اور ہر شخص یہ سن کر حیران رہ گیا کہ ایک معزز شخصیت کے گھر پر اچانک اس طرح چھاپہ ماری کی گئی۔ وہ تو خیر ہو ظفرالاسلام خان کے خیر خواہوں کا جنھوں نے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔
کچھ ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی و سماجی افراد دہلی پولس کے اس قدم کے خلاف کھڑے ہو گئے جس کے بعد پولس کو اپنا قدم پیچھے کی طرف کھینچنا پڑا۔ ان افراد میں امانت اللہ خان، آصف محمد خان اور ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا نام بھی سامنے آ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں ہی ہستیاں الگ الگ پارٹیوں سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن جب دہلی پولس ظفرالاسلام خان پر جب غلط طریقے سے شکنجہ کسنے پہنچی تو، سبھی متحد ہو گئے۔
اس سلسلے میں سینئر صحافی ایم ودود ساجد کا ایک پیغام وہاٹس ایپ پر گشت کر رہا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ "دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی گرفتاری کی کوشش کو اوکھلا کے مختلف الخیال سیاسی قائدین نے جس طرح ناکام بنایا اس کے لئے انہیں سلام۔" وہاٹس ایپ پیغام میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ "ڈاکٹر تسلیم رحمانی، آصف محمد خان اور امانت اللہ خان تینوں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائد ہیں، مگر تینوں نے دہلی پولس کے خلاف اور ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے حق میں جو اتحاد دکھایا اس نے کمزوروں اور حوصلہ کھودینے والوں کو پھر طاقت اور حوصلہ بخش دیا۔"
قابل ذکر ہے کہ کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے بھی ظفرالاسلام خان کے گھر اچانک پولس چھاپہ ماری کی شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں واضح لفظوں میں لکھا کہ ’’بیجا غداری کے مقدمہ کے تعلق سے دہلی پولس کا ڈاکٹر ظفر اسلام کی رہائش پر عین افطار سے قبل چھاپہ مارنا قابل مذمت ہے۔ دہلی پولس کے متعصب رویہ کا ایک بار پھر پردہ فاش ہو گیا۔ یہ دہلی کے مسلم مخالف فسادات کے اصل مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہیں، جبکہ مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ دہلی پولس نے ظفرالاسلام خان کی رہائش کا دورہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر کیا تھا جسے پولس نے وسنت کنج کے رہائشی کی شکایت کی بنیاد پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے (بغاوت) اور 153 اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی نیت سے اقدام کرنا) کے تحت دائر کیا گیا ہے۔ اس ایف آئی آر کے بعد سے ہی دہلی پولس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ظفرالاسلام خان کے دفاع میں سیکولر ذہن کے لوگ متحد ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 May 2020, 10:40 AM