مسلم نوجوان کی لنچنگ اور مسلمانوں کے بائیکاٹ پر پولیس کمشنر کو دہلی اقلیتی کمیشن کا نوٹس
شاستری نگر میں لوگ لاگو پابندیوں کو توڑتے ہوئے میٹنگ کرکے پلاننگ کررہے ہیں کہ اپنی کالونی میں مسلمانوں کو نہیں آنے دیں گے
دہلی اقلیتی کمیشن نے دہلی پولیس کمشنر کو دو نوٹس بھیجے ہیں۔ ایک کا تعلق شاستری نگر میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کے بارے میں ہے اور دوسرا بوانہ پولیس اسٹیشن کے دائرے میں آنے والے ایک گاؤں میں ایک مسلم نوجوان کی لنچنگ کے بارے میں ہے۔
کمیشن نے اپنے نوٹس کے ساتھ شاستری نگر کا ایک ویڈیو اٹیچ کیا ہے جو 5؍اپریل یا اس کے آس پاس کی تاریخ میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں کچھ لوگ شاستری نگر کی ایک سڑک پر کوونا وائرس کے سلسلے میں لاگو پابندیوں کو توڑتے ہوئے میٹنگ کرکے پلاننگ کررہے ہیں کہ اپنی کالونی میں مسلمانوں کو نہیں آنے دیں گے اور دوسری کالونیوں کے لوگوں سے بھی کہیں گے کہ وہ بھی یہی کریں۔ ویڈیو میں موجود بعض لوگوں کے چہرے اور علاقے کی بلڈنگیں بالکل واضح نظر آرہی ہیں۔
اقلیتی کمیشن نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ یہ میٹنگ تعزیرات ہند کی بہت سے دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہے جیسے دفعہ 120۔بی (مجرمانہ سازش)،دفعہ 153(فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال انگیزی)، 153۔اے (مذہب اور نسل وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان عداوت پھیلانا) اور 153۔بی (قومی یکجہتی کے خلاف سرگرمی)۔ کمیشن نے اپنے مذکورہ نوٹس میں مزید کہا ہے کہ مذکورہ میٹنگ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 51؍کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ میٹنگ موجودہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرکے ہورہی ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں کچھ لوگ اپنے پلان پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے پھل اور سبزی بیچنے والے دو ٹھیلے والوں کو روک کر ان کا آدھار کارڈ مانگتے ہیں اور آدھار کارڈ نہ دکھا پانے پر ان کو باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوبارہ آدھار کارڈ لیکر آنا تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔
اپنے ایک دوسرے نوٹس میں کمیشن نے دہلی پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ میڈیا کی بے راہ روی اور حکومتی اداروں کی اس کے بارے میں خاموشی کی وجہ سے نفرت پر مبنی جرائم دہلی میں عام ہوگئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال لنچنگ کا ایک ویڈیو ہے جو سوشل میڈیا پر ۶؍اپریل سے گردش کررہا ہے ۔ اس ویڈیو میں ایک مسلم نوجوان کی بے رحمی سے دہلی کے ایک دیہاتی علاقے میں پٹائی ہورہی ہے۔ کمیشن کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ حادثہ بوانہ تھانے کی حدود میں واقع گاؤں ہریولی کا ہے جو شمالی مغربی ضلع میں پڑتا ہے۔ نفرت کا شکار نوجوان گاؤں کا باشندہ محبوب ہے اور پیشے سے ٹریکٹر ڈرائیور ہے۔ اسے بعض رپورٹوں میں دلشاد کہا گیا ہے۔ یہ نوجوان قریبی گاؤں قطب گڑھ کے ایک نوجوان کے ساتھ بھوپال کی تبلیغی جماعت کے اجتماع میں گیا تھا۔ واپسی پرپولیس اسے پچھلے 5؍اپریل کو اس کے گاؤں چھوڑ کر گئی لیکن مقامی جاٹ لوگوں نے اسے گاؤں میں گھسنے نہیں دیا بلکہ اسے ایک کھیت میں لے جاکر چپلوں ، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے خوب مارا جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور اس کے ہاتھ ٹوٹ گئے۔ اس کے گھر والے یہ سب بے بسی سے کھڑے دیکھتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والوں میں حکومت کے کچھ ملازمین بھی شامل تھے۔
کمیشن نے نوٹس میں مزید کہا ہے کہ جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ محبوب مرنے کے قریب ہے تو انھوں نے ایمبولنس بلائی اور یہ کہانی بنائی کہ محبوب ٹریفک کے حادثے میں زخمی ہوگیا ہے۔ ایمبولنس اسے کسی اسپتال میں لے گئی جہاں سے اسے روہنی کے امبیڈکر اسپتال میں بھیج دیا گیا اور بعد میں اسےکسی اور اسپتال میں ریفر کردیا گیا۔ ۷؍اپریل تک کی اطلاع کے مطابق محبوب کی حالت نازک تھی اور اس کے حملہ آوروں میں سے اس کی نگرانی کررہے تھے تاکہ وہ ان کے خلاف پولیس کو کوئی بیان نہ دے دے۔ گاؤں میں محبوب کے گھر والوں پر دباؤ ہے کہ وہ صلح کرلیں اور پولیس میں معاملہ نہ لے جائیں۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے مار مار کر محبوب سے اس نوجوان کا نام پوچھا جو اس کے ساتھ بھوپال گیا تھا۔ محبوب نے ان کو بتایا کہ وہ نوجوان پاس والے گاؤں قطب گڑھ کا نور محمد تھا جس کے والد کا نام مہاویر ہے( جو مسلمان ہے لیکن اس نے ۱۹۴۷ میں خوف کے مارے اپنا نام بدل لیا تھا) ۔ حملہ آوروں نے قطب گڑھ گاؤں میں اپنے جاننے والوں کو فون کردیا اور وہاں بھی نور محمد کی خوب پٹائی ہوئی ۔
نوٹس میں کمیشن نے پولیس کمشنر کو اطلاع دی ہے کہ مذکورہ دونوں گاوؤں (ہریولی اور قطب گڑھ) میں مسلمان قلیل تعداد میں ہیں۔ وہاں کے جاٹ ان سے کہہ رہے ہیں کہ اب انھیں ہندوؤں کی طرح رہنا ہے ورنہ انھیں گاؤں سے نکال دیا جائے گا۔ وہ لوگ مختیار سنگھ (مسلمان جس نے ۱۹۴۷ میں اپنا نام بدل لیا تھا) کو گھسیٹ کر گاؤں کے مندر لے گئے اور وہاں اس سے کہلوایا کہ اب سے وہ اپنے مردوں کو دفن نہیں کرے گا اور ہندوؤں کی طرح رہے گا۔ ان دونوں گاوؤں کے مسلمانوں کو خبردار کردیا گیا ہے کہ اگر انھوں نے پولیس سے شکایت کی تو انھیں تباہ کردیا جائے گا اور گاؤں کے باہر پھینک دیا جائے گا۔
نوٹس میں کمیشن نے پولیس کمشنر کو مزید اطلاع دی ہے کہ ۶؍اپریل کو بوانہ چوک مسجد کے امام مولانا محمد ایوب کے گھر پر ایک بھیڑ نے حملہ کیا لیکن پولیس کی بروقت مداخلت کی وجہ سے وہ بچ گئے۔ اسی طرح بوانہ جے جے کالونی کی ایک مسجد میں ان لوگوں نے گھسنے کی کوشش کی۔ ہولمبی کلاں کی سڑکوں پر ٹوپی اور داڑھی والے مسلمانوں کو روک کر بے عزت کیا جارہا ہے اور طعنے دیے جارہے ہیں۔
اقلیتی کمیشن نے اپنے نوٹس میں پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ یہ واضح ہے کہ بالخصوص شمالی مغربی ضلع میں مسلم اقلیت اس وقت بہت مشکل حالات میں ہے ،ان کو آپ کی جانب سے تسلی دلانے کی ضرورت ہے، نیز مفسدین کے ساتھ سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ اس قسم کا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کمیشن نے پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ (۱) ہریولی کے محبوب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی کا حکم دیں اور اس کے مناسب علاج کا بندوبست کریں اور معاملے کے بارے میں ایف آئی آر درج کرائیں۔ (۲) قطب گڑھ گاؤں کے نور محمد پر حملہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ (۳) علاقے میں پولیس کی تعداد اور گشت بڑھایا جائے تاکہ مفسدین کو واضح پیغام جائے کہ نظم و ضبط سے کھلواڑ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کمیشن نے پولیس کمشنر سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔