ایس ایس سی معاملہ: بے روزگاروں کی تحریک دبانے کے لیے مظاہرین کا کھانا-پانی بند
ایس ایس سی کے خلاف لگاتار 6 دنوں سے جاری بے روزگار نوجوانوں کے احتجاجی مظاہرے کو دبانے کے لیے دہلی پولس نے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میٹرو اسٹیشن کو بھی بند کرا دیا ہے۔
دہلی میں اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) کے دفتر کے باہر کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے بے روزگار نوجوانوں کی تحریک کو دبانے کے لیے دہلی پولس نے سنیچر کو علاقے میں صرف پانی کی فروخت پر ہی پابندی عائد نہیں کر دی بلکہ بیت الخلاء کو بھی بند کرا دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھیڑ پر قابو پانے کے لیے پولس نے ایس ایس سی کے نزدیک واقع جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میٹرو اسٹیشن کو بھی بند کروا دیا ہے۔ ایس ایس سی امتحان کا آن لائن سوالنامہ اور ان کے جوابات سوشل میڈیا پر افشا ہونے کے بعد سے امتحان میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے سی بی آئی جانچ کے مطالبے پر ہزاروں طلبا 28 فروری سے کمیشن کے دفتر کے باہر ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔
احتجاجی مظاہرہ میں شامل بے روزگار نوجوانوں نے اس مظاہرہ کے دوران علاقے میں صاف صفائی بنائے رکھنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لے لی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح کی بے ضابطگی پیدا نہ ہو۔ لیکن پولس انتظامیہ نے انھیں پریشان کرنے کے لیے بنیادی سہولتوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
مظاہرہ کر رہے نوجوانوں نے پولس کے ذریعہ عائد پابندیوں کے باوجود سڑکوں پر اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے ہولی کے موقع پر بھی وہاں سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ ان نوجوانوں میں کئی اتر پردیش، بہار اور جھارکھنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جو مظاہرہ میں شامل ہونے کے لئے دہلی پہنچے ہیں۔ انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں مکمل یقین ہے کہ پیسہ خرچ کرنے والے امیدواروں کو ان امیدواروں پر ترجیح دی جا رہی ہے جو ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں یا پھر جو افسران کی ہتھیلی کو گرم کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس تنازعہ نے لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا ضرور ہے لیکن اصل دھارے کی میڈیا نے اب تک اس معاملے کو پوری طرح سے نظر انداز کر رکھا ہے۔ نیچے دیے گئے ٹوئٹ اور ویڈیو تھریڈس اس بات کی عکاسی بہتر طریقے سے کرتے ہیں۔ آپ بھی دیکھیے...
بہار کے پیوش اور انل رنجن نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دونوں سب انسپکٹر عہدہ کے لیے جھارکھنڈ میں امتحان میں شامل ہوئے تھے۔ پیوش نے کل 360 نمبروں کے امتحان میں 316 نمبر اور رنجن نے 280 نمبر حاصل کیے، اس کے باوجود ان کا انتخاب نہیں ہو پایا کیونکہ کٹ آف مارکس غیر معمولی طور پر بڑھا کر 334 کر دیا گیا تھا۔
ایس ایس سی دفتر کے باہر احتجاج کر رہے نوجوان ہاتھوں میں ترنگا لہرا رہے ہیں، جن میں کئی گریجویٹ کر رہے ہیں اور کئی ابھی ابھی گریجویٹ مکمل کر چکے ہیں۔ مظاہرہ کے مقام پر 20 اساتذہ کا ایک گروپ بھی یہ یقینی بنانے کے لیے پہنچا ہوا ہے کہ طلبا کا مظاہرہ تشدد کی شکل اختیار نہ کر لے۔ ان اساتذہ میں سے ایک نیتو سنگھ نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ قومی راجدھانی کے کوچنگ ادارہ اور اساتذہ اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں اور نوجوانوں کو کھانا اور پانی دستیاب کرا رہے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اساتذہ کیوں اس تحریک کا حصہ ہیں، نیتو سنگھ نے کہا کہ وہ لوگ کم صلاحیت والے طلبا کے انتخاب سے فکر مند ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ چونکہ وہ 2005 سے طلبا کی تیاری کرا رہی ہیں اس لیے وہ 2012-13 سے ہی اس امتحان میں کم صلاحیت والے طلبا کے انتخاب کی تصدیق کر سکتے ہیں اور یہ روایت دھیرے دھیرے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ نیتو نے کہا کہ ’’یہ اساتذہ کے ساتھ، کم صلاحیت والے طلبا کے سامنے خود کو کامیاب طلبا کی فہرست سے باہر پانے والے حقیقی، محنتی اور اہل امیدواروں کے لیے بھی کافی مایوس کن ہے۔‘‘ اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے 27 فروری کو کمیشن کے سامنے دستاویزی ثبوت اور پورے معاملے کی کیس اسٹڈی جمع کرائی تھی، لیکن ایس ایس سی نے صرف ایک داخلی جانچ کی پیشکش کی ہے۔ حالانکہ مقابلہ میں شامل ہونے والے طلبا اس پورے انتخابی عمل کی سی بی آئی جانچ کرائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تحریک چلا رہے طلبا نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ اس امتحان میں الگ الگ سطحوں پر بدعنوانی ہوئی ہے اور ان میں سے ایک امتحان مرکز کا بھی ہے۔ کئی مہینے تک الگ الگ مراحل میں ہوئے اس آن لائن امتحان کو مشتبہ سائبر کیفے، نجی کمپیوٹر مراکز میں کرانے کی اجازت دی گئی جن میں سے کچھ کا ایک یقینی سیاسی جھکاؤ تھا۔ کمیشن اور حکومت نے اپنے امتحان مراکز میں اس امتحان کو منعقد کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ امتحان مراکز کے سلیکشن کی جانچ سے بھی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوگا۔ تحریک چلانے والے طلبا کی شکایت ہے کہ یو پی ایس سی کے مقابلے ایس ایس سی بہت شفاف رہا ہے اور وہ لوگ صرف سی بی آئی جانچ اور مستقبل میں مزید شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔