مہرولی بلڈوزر کارروائی پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت، 467 باشندوں کے شناختی دستاویزات جمع کرنے کی ہدایت

متاثرین کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ جب تک دہلی اربن شیلٹر امپروومنٹ بورڈ طے نہیں کر لیتا کہ جھگیاں بازآبادکاری کے لائق نہیں ہیں، تب تک زمین کی مالک ایجنسی انہدامی کارروائی شروع نہیں کر سکتی

<div class="paragraphs"><p>بلڈوزر کارروائی</p></div>

بلڈوزر کارروائی

user

قومی آواز بیورو

دہلی ہائی کورٹ نے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے ذریعہ جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں بلڈوزر کارروائی کو چیلنج پیش کرنے والی عرضی پر منگل کے روز سماعت کرتے ہوئے گوشیا کالونی سروس کمیٹی اور دیگر کے وکلا سے 467 باشندوں کے شناختی دستاویزات کی ایک فہرست جمع کرنے کے لیے کہا ہے۔ عدالت نے معاملے کی آئندہ سماعت کی تاریخ 14 مارچ طے کر دی ہے۔

جسٹس منمیت پریتم سنگھ اروڑا کی بنچ نے عرضی دہندہ کی وکیل انوپردھا سنگھ کو ڈی ڈی اے اور دہلی اربن شیلٹر امپروومنٹ بورڈ (ڈی یو ایس آئی بی) کے وکیل کو شناختی دستاویزات کی ایک فہرست فراہم کرنے کے لیے کہا۔ جج نے انھیں ڈی ڈی اے اور ڈی یو ایس آئی بی کے ذریعہ داخل حلف ناموں پر ایک جواب داخل کرنے کے لیے بھی کہا۔ اس کے لیے عدالت نے انھیں ایک ہفتہ کا وقت دیا۔


ہائی کورٹ نے 17 فروری کو ڈی ڈی اے اور ڈی یو ایس آئی بی کو عرضی میں حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عرضی میں 12 دسمبر 2022 کے انہدامی نوٹس کو چیلنج دیا گیا ہے، جس میں ڈی ڈی اے نے پوری گوشیا کالونی میں ایک انہدامی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا تھا، جو پانچ دہائیوں سے زیادہ وقت سے وجود میں ہے اور اس میں تقریباً 4000 آبادی والے 600 سے زیادہ گھر ہیں۔

عرضی میں اجئے ماکن اور دیگر بنام انڈین یونین معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جھگیوں کو ہٹانے کے لیے پروٹوکول پر عمل کیے بغیر انہدامی مہم نہیں چلائی جا سکتی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب تک ڈی یو ایس آئی بی یہ طے نہیں کر لیتا کہ جھگیاں بازآبادکاری کے لائق نہیں ہیں، تب تک زمین کی مالک ایجنسی انہدامی کارروائی شروع نہیں کر سکتی۔


حالانکہ ڈی ڈی اے نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ زمین مہرولی آثار قدیمہ پارک میں آتی ہے جو جنوب وسطی ریج کا حصہ ہے، جہاں بڑی تعداد میں تاریخی عالمی شہرت یافتہ اسمارک موجود ہیں، جو ہندوستانی آثار قدیمہ سروے (اے ایس آئی) کے ذریعہ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈی ڈی اے کے لینڈ ریکارڈ کے مطابق اس عرضی کا لینڈ سبجیکٹ خسرہ نمبر 216 اور 217 گاؤں لادھا سرائے مہرولی، نئی دہلی لکھا ہے، جو غلط ہے اور خسرہ نمبر 217 ایکوائرڈ اراضی ہے۔

اس کے علاوہ ڈی ڈی اے کے حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شروعات سے ہی دہلی کے ماسٹر پلان میں اس زمین کو ہرے رنگ کی شکل میں علیحدہ رکھا گیا ہے او راسے ہرے رنگ کی شکل میں وسعت دیا جانا ہے اور اسے مہرولی ہیریٹج زون کے تحت محفوظ کیا جانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔