دہلی انتخاب: سیلم پور کے کانگریس امیدوار چودھری متین پرامید، لیکن کشمکش میں ہیں ووٹرس!

دہلی کے مسلم اکثریتی اسمبلی حلقہ سیلم پور میں مقابلہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی امیدوار کے درمیان سخت ہونے والا ہے۔ کانگریس امیدوار چودھری متین کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر سے ہوا کانگریس کے حق میں ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

’’مسلم ووٹرس ابھی کشمکش میں ہیں اور ووٹنگ سے دو دن پہلے ہی تصویر صاف ہو پائے گی۔ پہلے تو عام آدمی پارٹی کی کامیابی صاف نظر آ رہی تھی، لیکن حال کے دنوں میں دہلی کی سیلم پور اسمبلی سیٹ کا ماحول بدلا ہے۔ اب مقابلہ کانگریس اور عآپ کے درمیان سیدھا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے کہ دہلی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ اور جعفر آباد علاقے میں ایک ریٹیل شاپ چلانے والے محمد شاکر کا۔

سیلم پور اسمبلی حلقہ کی پتلی گلیوں سے ہوتے ہوئے آپ کو احساس نہیں ہوتا ہے کہ دہلی میں انتخاب کا ماحول ہے بھی یا نہیں۔ سیلم پور عام طور پر مسلم اکثریتی حلقہ مانا جاتا ہے۔ دہلی میں اسمبلی کی تشکیل کے بعد 1993 سے ہی اس اسمبلی سیٹ سے مسلم امیدوار کو ہی کامیابی ملتی رہی ہے۔


اس سیٹ سے کانگریس لیڈر چودھری متین احمد تقریباً 21 سال تک رکن اسمبلی رہے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ 5 سال سے حاجی اشراق عرف ہادی بھورے عام آدمی پارٹی سے رکن اسمبلی ہیں۔ لیکن اس بار حاجی اشراق کو ٹکٹ نہیں ملا ہے اور ان کی جگہ مقامی کونسلر عبدالرحمن عآپ کے امیدوار ہیں۔

اس علاقے کے سید اقبال ظفر ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کیجریوال کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ حاجی اشراق بدعنوان نہیں تھے اور اپنے حلقہ میں کافی سرگرم بھی تھے۔ امیدوار بدل کر کیجریوال نے پیغام دیا ہے کہ عآپ میں صرف کیجریوال کی ہی اہمیت ہے اور کسی کی نہیں۔ اب لگتا ہے کہ لوگ عآپ کی جگہ کانگریس کو ووٹ دیں گے۔‘‘


حالانکہ بہت سے لوگ ہیں جو عآپ حکومت کے کام سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ موج پور کے محمد ادریس کہتے ہیں کہ ’’کیجریوال کی حکومت تنہا ایسی حکومت ہے جس نے عام لوگوں کے لیے کام کیا ہے۔ اس الیکشن میں لوگ کام پر ووٹ دیں گے۔‘‘

سیلم پور اسمبلی حلقہ میں 35 فیصد غیر مسلم ووٹر ہیں اور انھیں دھیان میں رکھتے ہوئے بی جے پی نے کوشل مشرا کو میدان میں اتارا ہے۔ کوشل مشرا صرف ویسے علاقوں میں تشہیر کر رہے ہیں جہاں غیر مسلم آبادی ہے۔ انھوں نے مسلم علاقوں میں کوئی بھی انتخابی جلسہ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔


دوسری طرف یہاں کانگریس امیدوار کو ہمیشہ ہندو-مسلم دونوں ووٹروں کی حمایت ملتی رہی ہے۔ چودھری متین ہر سال کانوڑ کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں، جس کی تعریف پورے ملک میں ہوتی ہے۔ اس کیمپ کو ہندو-مسلم اتحاد کی مثال مانا جاتا ہے۔ چودھری متین کہتے ہیں ’’کانگریس نے ہر طبقہ میں کام کیا ہے اور اس بار نصف سے زیادہ غیر مسلم ووٹر کانگریس کو ووٹ دیں گے کیونکہ وہ بی جے پی اور عآپ سے بے حد ناراض ہیں۔‘‘

2015 اسمبلی انتخاب میں عآپ کے امیدوار کو تقریباً 57 ہزار ووٹ ملے تھے اور کانگریس کے چودھری متین تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ بی جے پی کے سنجے جین دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ متین کو تقریباً 23 ہزار اور سنجے جین کو تقریباً 29 ہزار ووٹ ملے تھے۔ 2015 کے الیکشن میں عآپ کی لہر تھی جس کی وجہ سے کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


چودھری متین کا صاف کہنا ہے کہ اس بار پھر سے کانگریس کے حق میں ہوا ہے، کیونکہ لوگوں نے اب عآپ کا کام دیکھ لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’2019 کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو 64 ہزار سے زیادہ ووٹ سیلم پور اسمبلی حلقہ سے ملے تھے جب کہ آپ کو محض 10 ہزار۔ عآپ کا ووٹ شیئر بہت بری طرح گرا ہے۔‘‘

حالانکہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ووٹر الگ تھلگ پیمانے کی بنیادی پر ووٹ دیتے ہیں، لیکن اس بار سی اے اے اور این آر سی کے سبب اسمبلی انتخاب میں بھی قومی رنگ نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں مسلم ووٹر فی الحال کشمکش میں نظر آ رہے ہیں۔ لیکن شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی پر کانگریس کے واضح رخ کے بعد کانگریس سیلم پور اسمبلی حلقہ میں بازی مارتی نظر آ رہی ہے۔ا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Feb 2020, 8:11 PM