سیلنگ: لاکھوں دکانیں بند، رام لیلا میدان میں مزدوروں کا پھوٹا غصہ
دہلی کے کاروباریوں نے سیلنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے مقصد سے بدھ کو دہلی میں ہڑتال کا اعلان کیا جس کے بعد ریاست کے بڑے بازار پوری طرح بند رہے۔
آج دہلی کے ٹریڈرس نے سیلنگ کے خلاف بند کا اعلان کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنے کے مقصد سے رام لیلا میدان میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ٹریڈرس سمیت ہزاروں لوگ، ان کے اہل کنبہ اور ملازمین طبقہ نے رام لیلا میدان پہنچ کر صدائے احتجاج بلند کی۔ یہ سبھی آل دہلی ٹریڈرس اینڈ ورکرس ایسو سی ایشن اینڈ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈس کی جانب سے کیے گئے ہڑتال اور سیلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ میں پیش پیش رہے۔ ٹریڈرس نے مرکز سے آرڈیننس لا کر سیلنگ کے عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی دہلی حکومت سے بھی اس کے خلاف بل لانے کی بات کہی۔
دہلی میں جاری سیلنگ سے ویسے تو ملک کی مختلف ریاستوں سے آئے مزدور اور ملازمین متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر بہار اور اتر پردیش کے لوگ ہوئے ہیں۔ ان کی فیملی میں چھ سے آٹھ ممبران ایک ہی شخص کی آمدنی میں گزارا کرتے ہیں۔ بہار کے تکالیا، جو کہ رِکشہ پُلر ہیں اور فیکٹری سے سامان دکانوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں، اس احتجاجی مظاہرہ میں زور و شور سے اپنی بات رکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں 9000 روپے کما لیتا ہوں۔ اس سیلنگ کے بعد دکانیں بند ہو گئی ہیں اور کوئی کام نہیں ہو رہا جس سے میں بھی بے روزگار ہو گیا ہوں۔ میں گھر پیسے نہیں بھیج پا رہا ہوں۔ میں نے فیملی کے چھ اراکین کو گھر واپس بھیج دیا ہے جو میری کمائی پر منحصر کرتے تھے۔‘‘ انھوں نے حکومت سے گزارش کی کہ ’’سیلنگ کے عمل کو روکا جائے۔ اگر یہ جاری رہا تو ہماری کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔‘‘
تکالیا جس فیکٹری کا سامان رکشہ میں ڈھونے کا کام کرتے ہیں اس کے مالک دھرمیندر کمار بھی سیلنگ کے خلاف مظاہرہ میں شامل تھے۔ وہ ’قومی آواز‘ سے کہتے ہیں کہ ’’ہماری دکان اور فیکٹری میں تقریباً 100 ملازم ہیں۔ سیلنگ سے سبھی کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ جب حکومت جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو گھر دے سکتی ہے تو ہمیں کیوں نہیں؟ ہم ٹیکس دہندگان میں سے ایک ہیں جس کا فائدہ حکومت کو پہنچتا ہے۔ اپنی دکان کے لیے ہم ہر چارج ادا کرتے ہیں مثلاً کنونشن چارج، کمرشیل الیکٹرسٹی بل وغیرہ، اس کے باوجود دکانوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ ہم کہا جائیں؟‘‘
رام لیلا میدان میں احتجاج کرنے والے ایک دیگر مزدور رمیش کمار کہتے ہیں ’’دیکھیے، ہم یہاں سیلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے آئے ہیں۔ میں دہلی کچھ پیسے کمانے کے لیے آیا ہوں۔ اگر سیلنگ کے خلاف احتجاج نہیں کریں تو پھر کیا کریں؟ میں یہ نہیں جانتا کہ کیا قانونی ہے اور کیا غیر قانونی، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ہم محنت مزدوری کر کے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ اگر سبھی تقریباً 7 لاکھ دکانیں بند ہو گئیں تو ہم جیسے مزدور کیسے ترقی کر پائیں گے؟ ہم واپس اپنے گھر چلے جائیں گے۔ مجھے نہیں معلوم اس احتجاج سے سیلنگ روکنے میں مدد ملے گی یا نہیں، لیکن ہم اس وقت پریشانی میں ہیں۔‘‘
امر کالونی میں ایک دکان کے مالک اور ٹریڈ یونین کے ممبر بھوپندر سنگھ ریاستی حکومت سے سیلنگ کے خلاف آرڈیننس پاس کرنے کی گزارش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ہماری دکانیں 8 مارچ کو بند ہو گئیں۔ میں اپنی فیملی میں کمائی کرنے والا تنہا شخص ہوں۔ اگر میں اتنا پریشان ہوں تو سوچئے کہ میرے ماتحت کام کرنے والوں کا کیا حال ہوگا۔ پانچ سے دس افراد میری دکان میں کام کرتے ہیں جو اس وقت بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اس سیلنگ سے کئی چھوٹی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ہم لوگ حکومت کو کئی طرح کے ٹیکس دیتے ہیں لیکن پھر بھی اس وقت ہم پریشان ہیں۔ کوئی ہماری آواز نہیں سن رہا ہے۔‘‘
قرول باغ باشندہ محمد انصار کہتے ہیں ’’سیلنگ کے عمل نے میرے بزنس کو متاثر کیا ہے۔ میرا جینس کا ایک دکان تھا جس میں تقریباً 50 لوگ کام کرتے تھے۔ سیلنگ کی وجہ سے بزنس میں تقریباً 40 فیصد گراوٹ ہوئی ہے۔ میرے زیادہ تر ملازم ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرس کے جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ صرف مزدوروں کو ہی سیلنگ سے نقصان نہیں ہوگا بلکہ دہلی حکومت بھی خسارے میں رہے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دہلی کی اکونومی اور ٹریڈ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آخری تین مہینے میں کاروبار میں 40 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اگر یہ جاری رہا تو دہلی کے ٹریڈرس یہاں سے کسی دوسری قریبی ریاست میں منتقل ہو جائیں گے اور یہ دہلی حکومت کے ریونیو میں بڑا خسارہ ہوگا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔