دہلی اسمبلی انتخابات 2020: کیجریوال کے سامنے گزشتہ جیت کی تاریخ دہرانے کا چیلنج
اگلے ماہ ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے قومی کنوینر اور وزیر اعلی اروند کیجریوال کے سامنے اپنا سب سے مضبوط قلعہ بچانے کا چیلنج ہے
اگلے ماہ ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے قومی کنوینر اور وزیر اعلی اروند کیجریوال کے سامنے اپنا سب سے مضبوط قلعہ بچانے کا چیلنج ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں دہلی اسمبلی کی 70 میں سے 67 نشستیں جیتنے والے کیجریوال کا جادو اس وقت چلے گا یا نہیں اس پر پورے ملک کی نگاہیں ہیں۔ کیجریوال اپنے پانچ سال کی مدت کے دوران خاص طور سے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کئے گئے کاموں کو گناتے ہوئے اس بار بھی پورے اعتماد میں ہیں جبکہ سیاسی پنڈتوں کا بھی خیال ہے کہ گزشتہ کرشمہ کی طرح بھی اس سال وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
سال 2013 کے دہلی اسمبلی انتخابات سے کچھ وقت پہلے ہی ’عآپ‘ کی تشکیل ہوئی تھی اور اس انتخابات میں دہلی میں پہلی بار سہ رخی مقابلہ ہواجس میں 15 سال سے اقتدار پر قابض کانگریس 70 میں سے صرف آٹھ سیٹیں جیت پائی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) حکومت بنانے سے صرف چار قدم دور یعنی 32 سیٹوں پر پھنس گئی۔’عآپ‘کو 28 سیٹیں ملیں اور باقی دو دیگر کے کھاتے میں گئیں۔
بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش میں کانگریس نے ’عآپ‘ کو حمایت دی اور کیجریوال نے حکومت بنائی۔لوک پال کو لے کر دونوں پارٹیوں کے درمیان ٹھن گئی اور کیجریوال نے 49 دن پرانی حکومت سے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد دہلی میں صدر راج لگا اور فروری 2015 میں ’عآپ‘نے تمام سیاسی پنڈتوں کے اندازوں کو جھٹلاتے ہوئے 70 میں سے 67 سیٹیں جیتیں۔ بی جے پی تین پر سمٹ گئی جبکہ کانگریس کی جھولی مکمل طور خالی رہ گئی۔
دہلی میں 2015 میں ’عآپ' کو ملی زبردست کامیابی کے وقت کیجریوال کے ساتھ کئی بڑے لیڈر تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایک ایک کرکے کنارے کر دئیے گئے۔ ان میں یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن اور آنند کمار سب سے اہم تھے۔ پارٹی کے ایک اور اہم چہرہ کمار وشواس پارٹی میں تو ہیں مگر ایک طرح سے بنواس ہی بھگت رہے ہیں۔ ’عآپ‘نے دہلی اسمبلی انتخابات اور 2014-2019 کے عام انتخابات کے علاوہ اس دوران مختلف ریاستی اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
پنجاب اسمبلی کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی جھولی خالی ہی رہی بلکہ بڑی تعداد میں اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔ گزشتہ عام انتخابات میں پنجاب میں چار سیٹیں جیتنے والی ’عآپ‘ کو اس بار ایک پر ہی سمٹ گئی۔ کیجریوال کی پارٹی میں نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کو چھوڑ دیا جائے تو شاید ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جس کی پوری دہلی پر مضبوط گرفت نظر آتی ہو۔ اس اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کو جیت دلانے کا دار و مدار مکمل طور پرکیجریوال کے کندھوں پر ہی ہے۔
بی جے پی 21 سال سے دہلی کے اقتدار سے باہر ہے اور وہ اس بار وزیر اعظم نریندر مودی کی شبیہ اور حال ہی میں 1731 کچی کالونیوں کو مستقل کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلہ کو لے کر اپنا مضبوط دعوی ٹھونکنے کی بات کر رہی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد دہلی میں تینوں شہر کارپوریشنز کے انتخابات میں دارالحکومت کے عوام نے ’عآپ‘ کو مسترد کردیا اور اس بار لوک سبھا انتخابات میں اس کی حالت گزشتہ عام انتخابات سے بھی بدتر ہوئی۔ پارٹی کانگریس کی سرگرمیوں کا فائدہ ملنے کی امید کر رہی ہے۔
کانگریس نے حال ہی میں اپنے پرانے لیڈر سبھاش چوپڑا کو کمان سونپی ہے اور وہ تمام پرانے رہنماؤں کو متحد کرکے پوری سرگرمی سے مصروف ہیں اور پارٹی کا منشور آنے سے پہلے ہی اقتدار میں آنے پر عوام سے پرکشش وعدے کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر کانگریس کے ووٹ فیصد میں اچھا اضافہ ہوتا ہے تو کیجریوال کے لئے مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ گزشتہ سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی نے دہلی کی ساتوں نشستیں جیتیں تھی اور کانگریس پانچ میں دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ سال 2014 کے عام انتخابات میں تمام ساتوں سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہنے والی ’عآپ‘اس بار صرف دو پر ہی دوسرے مقام پر رہی۔
گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں کل پڑے ووٹوں میں سے نصف سے زائد 56.50 فیصد بی جے پی کی جھولی میں پڑے جبکہ ’عآپ‘کو صرف 18.10 فیصد ہی ووٹ ملے۔ عام انتخابات میں بی جے پی 70 میں سے 65 اسمبلی سیٹوں پر آگے رہی تھی، باقی پانچ پر کانگریس آگے رہی تھی۔ کانگریس نے 22.50 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سال 2015 کے اسمبلی انتخابات میں ’عآپ‘ نے 54.30 فیصد ووٹ حاصل کر 70 میں سے 67 سیٹیں جیتیں تھی۔ بی جے پی 32.10 ووٹ حاصل کر تین سیٹ جیت پائی تھی۔ کانگریس کو 9.60 فیصد ووٹ ملے تھے مگر اسے ایک بھی سیٹ نصیب نہیں ہوئی۔
’عآپ‘ کے ٹکٹ پر پچھلی بار جیتے بہت سے ممبران اسمبلی کی وزیر اعلی کے طریق کار سے ناراضگی رہی اور انہوں نے پارٹی کے خلاف بغاوتی سر اپنا لئے۔ ان میں سب سے مشہور چہرہ کیجریوال کے قریبی ساتھی اور وزیر رہے كراول نگر کے ممبر اسمبلی کپل مشرا اور چاندنی چوک کی ممبر اسمبلی الكا لامبا کا ہے۔ اس کے علاوہ گاندھی نگر سے رکن اسمبلی انل باجپئی اور بجواسن کے کرنل دیوندر سهراوت کے بھی بغاوتی سر رہے۔ بوانا سے رکن اسمبلی وید پرکاش نے استعفی دے کر بی جے پی کا دامن تھاما اور ضمنی انتخابات میں ہار گئے جبکہ راجوری گارڈن سے جرنیل سنگھ نے استعفی دے کر پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ یہاں ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑے اکالی امیدوار منجندر سنگھ سرسا کامیاب ہوئے تھے۔ خیال رہے دہلی میں آٹھ فروری کو پولنگ اور 11 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔