بابری مسجد مقدمہ میں شکست، ملی قیادت کی نَاکامی

اس فیصلہ کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کی ضرورت اور افادیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، فیصلہ بسرو چشم قبول کرکے آگے بڑھنے میں ہی ملک اور قوم کا مفاد ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

عبید اللہ ناصر

ایک نشست میں تین طلاق کے معاملہ کے بعد بابری مسجد معاملہ میں مسلمانوں کو عدالت میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اس کے لئے اگر نام نہاد ملی قیادت خاص کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ   بورڈ کی ضرورت اور  افادیت پر از سر نو غور کیا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ چند طالع  آزماؤں نے بورڈ کو یرغمال بنا لیا ہے جن کی وجہ سے ہندستانی مسلمانوں اور خود بورڈ کو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف بورڈ  بلکہ اور بھی کئی ملی اداروں پر آکٹوپس کی طرح قبضہ کر رکھا ہے، جن کی وجہ سے ماضی کے یہ شاندار ادارے آج سفید ہاتھی بن گئے ہیں۔ ایسے افراد کی شناخت کر کے انہیں الگ تھلگ کر دینا ہی ملت کے عظیم تر مفاد میں ہے-

ایک نشست میں تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ میں چل رہے مقدمہ کے دوران قوم کے زیادہ تر دانشوروں نے کھل کر یہ بات کہی تھی کہ قران کی رو سے اس غلط طریقہ سے دی جانے والی طلاق کو مسلم پرسنل لو بورڈ اگر غیر شرعی اور قرانی تعلیمات کے خلاف قرار دے  دے تو سپریم کورٹ کو نہ اسکے خلاف فیصلہ دینے کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی حکومت کو اس کے لئے کوئی قانون بنانا پڑیگا لیکن مرغ کی ایک ٹانگ پر بضد بورڈ کے علما نے نہ تو حکومت اور سپریم کورٹ کی منشاء سمجھی اور نہ ہی مسلم دانشوروں ماہرین قانون اور خود اپنے اندر سے ہی اٹھنے والی آوازوں پر کان دھرا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

ایودھیا تنازعہ کے سلسلہ میں بھی بورڈ نے کسی کی نہیں سنی یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مصالحتی ٹیم کی بھی نہیں سنی اور اس بات پر بضد رہا کہ عدالت ہی فیصلہ کرے ہندستان کے آج کے سیاسی اور سماجی ماحول میں کیا فیصلہ آئیگا اس کا انداز ہ بھلے ہی بورڈ کے نا عاقبت اندیش اکابرین کو نہ رہا ہو لیکن عام مسلمان سے لیکر مسلم دانشور وکلا اور مسلم سماج کے دیگر طبقہ کے افراد اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ انکی متفقہ راۓ  تھی چند اچھی اور دور رس شرطوں کے ساتھ مسجد سے دستبردار ہو جایا جائے سعودی عرب ترکی اور کئی  مسلم ممالک میں مسجدوں کو منتقل کے جانے کی مثالیں موجود ہیں ایسے میں اگر رفع شر اور ملک و قوم کے عظیم مفاد کو سامنے رکھ  کر مصالحت کر لی جاتی تو آج ملت کو جو احساس شکست ہو رہا ہے اس سے بچت  ہو جاتی-

سنگھیوں کو چھوڑ دیں تو عام ہندو جو سنگھ کی مسلم دشمنی کا مخالف ہے اور ہر سخت وقت میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اسکے ہاتھ مضبوط ہوتے اور ایک اچھا پیغام جاتا لیکن یہاں بھی وہی طالع آزما بیچ میں آ گئے اور ایک بار پھر ہندستانی مسلمانوں کو اپنی سیاسی و سماجی  کسمپرسی کا احساس دلا گئے-

مصالحت کے سلسلہ میں شری شری کی طلب کردہ ایک میٹنگ میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا اور شری شری نے جو پیش کش کی تھی وہ کافی مثبت تھیں ان میں جو بات مجھے سب سے زیادہ اپیل کی تھی وہ یہ تھی کی مجوزہ رام مندر کے گیٹ پر ہندستان کی سبھی زبانوں اور انگریزی میں یہ کتبہ لگوا دیا جائیگا کہ ہندستانی مسلمانوں نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات اور عقیدہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس زمین پر سے اپنا دعوہ واپس لے کر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی۔ سوچئے ملک ہی نہیں دنیا بھر سے آنے والے ہندو زائرین  جب اس کتبہ کو پڑھتے تو ہندستانی مسلمانوں کے لئے انکے دل میں خیر سگالی کا جذبہ پیدا ہوتا یا نہیں لیکن وہی علامہ اقبال والی بات ’اس کو کیا جانیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام‘۔


شری شری نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کی گارنٹی سے یہ وعدہ  بھی ہندوؤں سے کروا دینگے کہ بابری مسجد کے بعد اب کسی مسجد یا کسی مسلم دور کی عمارت  کو لے کر کوئی تنازعہ نہیں کھڑا  کیا جائیگا اور ایودھیا میں ہی دوسری مسجد کی تعمیر کے لئے زمین اور رقم بھی فراہم کی جائیگی۔ سپریم کورٹ نے بھی آج کم و بیش ایسا ہی فیصلہ دیا ہے لیکن ایک خطرناک نظیر بھی پیش کر دی ہے کہ مسلم دور کی کسی بی عمارت  کو لے کر تنازعہ کھڑا  کر دیا جائے  پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی  کرا کے اسکے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر بتا دیا جائے اور پھر اسے کھود ڈالا جائے۔ تاج محل، لال قلعہ سمیت سیکڑوں ایسی مساجد ہیں جن پر سنگھ پریوار دعوہ ٹھونک رہا ہے اب اور شدت سے تھونکے گا اور یہ  ہماری احمق قیادت کی مہربانی سے ممکن ہوگا۔

جو بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا باریک بنی سے تجزیہ کیا جاےگابادی النظر میں  اس میں متعدد خامیاں بھی ہیں ان سے بھی انکار نہیں  لیکن سپریم کورٹ نے بہر  حال ایک عفریت کو دفن کر دیا ہے اب ایسا کچھ نہیں کیا جانا چاہئے کہ مستقبل قریب میں یہ پھر سرنہ  اٹھا سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس فیصلہ کو من و عن  تسلیم کر لیا جائے بابری مسجد کے تحفظ کے لئے مسلمانوں نے سپریم کورٹ تک مقدمہ لڑ  کر اور بڑے  پیمانہ پر اپنی جان و مال کا نذرانہ دے کر اپنا مذہبی فریضہ پورا کر دیا اب جو فیصلہ آیا ہے اسے قدرت کا فیصلہ سمجھ کر تسلیم کریں اور خاموشی سے اپنی تعلیمی معاشی اور سماجی حالت سدھارنے کی فکر کریں -سننے میں آ رہا ہے کہ وہی طالع آزما عناصر  فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست گزارنے پر غور کر رہی ہیں انھیں اس کے لئے سختی سے روکا جانا چاہئے کیونکہ نظر ثانی میں فیصلہ بدل جائیگا یہ سوچنا ہی فضول ہوگا -دوسرے سپریم کورٹ نے متبادل جگہ زمین دینے کی جو بات کہی ہے وہ بھی قبول نہیں کی جانی چاہئے سوشل میڈیا کو اگر سماج کی نبض سمجھا جائے تو ٩٠ فیصدی سے زیادہ مسلمانوں نے زمین نہ قبول کرنے کو کہا ہے اور یہ درست بھی ہے جب سپریم  کورٹ خود کہہ رہا ہے کہ متنازعہ جگہ کا مالکانہ حق ثابت  کفنے میں مسلمان ناکام رہی تو پھر متبادل زمین لینے دینے کا کیا جواز بنتا ہے - ویسے بھی ایودھیا سمیت پورے ملک میں مسجدوں کی نہیں نمازیوں کی کمی ہے ایودھیا میں ایسی کوئی بھی نئی  مسجد مسجد ضرار ہوگی -


ہندستان کے  سیاسی اور سماجی ڈھانچہ کو گھن کی طرح لگے ایودھیا تنازعہ کا حل آخر کار آ  ہی گیا اور وہ متوقع خطوط پر ہی ہے- یہ کہنے لکھنے میں کوئی  تردد بھی نہیں ہونا چاہئےکہ دسمبر 1949 سے لے کر آج تک بابری مسجد رام  جنم بھومی تنازعہ میں ایسے ہی فیصلے ضلع عدالت ہائی کورٹ اور  سپریم  کورٹ سے آتے رہے ہیں جنھیں عقل  قبول کرنے سے قاصر رہی ہےلیکن  جنھیں قبول کرنا مسلمانوں کی  مجبوری رہی ہے -ماضی کے  مقدموں کا اگر اجمالی جایزہ  جائے  تو سب سے پہلی   انصافی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہوئی کہ جب رات کے اندھیرے میں چوری چھیپے مسجد میں رام للا کی مورتی رکھی گئی  اور جس کی رپورٹ علاقہ کے کانسٹیبل نےخود  رام کوٹ تھانہ میں  کرائی تھی  صاف کہا گیا تھا کہ نا معلوم افراد نے رات میں مسجد میں مورتی رکھی لیکن تب کے ضلع مجسٹریٹ نیر نے اسے متنازعہ قرار دے کر مسجد بحق سرکار ضبط کر لی مسلمانوں کے مسجد کے 200 میٹر کے دائرہ  میں آنے پر پابندی لگا دی  ہندوؤں کو مسجد کے اندر بنے رام چبوترہ پر پوجا پاٹھ  کی اجازت دے دی -وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور وزیر داخلہ سردار پٹیل نے وزیر اعلی  گوبند بلبھ پنت  کو سخت لہجہ میں خط لکھ کر وہاں سے مورتیاں ہٹانے اور مسجد بحال کرنے کو کہا لیکن شاطر دماغ پنت  نے ضلع مجسٹریٹ سے رپورٹ لگوا دی کہ اب ایسا کرنے سے امن عامہ کا سنگین مسلہ  کھڑا  ہو جاےگا اور صورت حال جوں کی توں  برقرار رکھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ کی بات ہدایت اور احکام پر ایک ضلع مجسٹریٹ کی رپورٹ کو فوقیت دینے کے پس پشت کون سی ذہنیت کار فرما تھی۔

اس وقت ایک بات اطمینان بخش تھی کہ یہ معاملہ ایودھیا سے باہر نہیں گیا تھا اور مقامی سطح پر کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں تھی بلکہ دونوں فریق ایک ہی رکشہ س ا ایودھیا سے فیض اباد پیشی پر آتے تھے اسی کی دھائی میں داؤ دیال  کھنہ کی قیادت میں رام مندر بناؤ تحریک ایودھیا سے  نکل کر سڑکوں پر آ گئی پورے ملک میں رام رتھ   یاترا  شروع ہوئی معاملہ کافی گرم ہونے لگا اسی دوران 1984 میں ایک مقامی وکیل  کی اپیل پر ضلع جج  فیض آباد نے بنا فریق ثانی کی عرضی کے سماعت کے مسجد پر پڑا تالا کھولنے اور وہاں پوجا پاٹھ کی اجازت دے دی جس پر نہ صرف چشم و زدن میں عمل درآمد ہوا بلکہ دور  درشن کے ذریعہ پورے ملک میں اسکی تشہیر بھی ہو گئی -یہ دوسرا موقعہ تھا جب عدالت اور انتظامیہ نے مسلمانوں کے ساتھ کھلی ہوئی  نا انصافی کی –


ایمانداری کی بات بہر  حال  یہ ہے کہ 1992 میں سپریم کورٹ نے ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کی تھی اس وقت کی کلیاں سنگھ حکومت سے ایک دو نہیں بلکہ 6-6 حلف نامہ داخل کرواے تھے کہ متنازعہ ڈھانچہ کا تحفظ کیا جاےگا لیکن وہ سارے حلف نامہ دھرے کے دھرے رہ گئے اور سنگھ پریوار وہ کر گزرا جو وہ چاھتا تھا -میں ان تمام مناظر اور واقعات کا چشم دید گواہ ہوں اور لبرہان کمیشن نیزسی بی   آئ  کی عدالت میں میری گواہی بھی ہو چکی ہے۔

افسوس اور شرم کی بات ہے کہ ہندستان کے آئین  سپریم کورٹ اور تمام جمہوری اور آئینی  اداروں کی ایسے توہین کرنے والے مجرم آج قریب تیس سال بعد  بھی نہ صرف آزاد گھوم رہے  ہیں بلکہ اعلی ترین سیاسی عہدوں پر بھی پہنچ چکے ہیں - ایودھیا تنازعہ پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں آج اس تنازعہ کا ڈراپ سین ہو گیا ہمیں دعا  کرنی چاہئے کہ ملک اب پھر ایسے روز بد نہ دیکھے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Nov 2019, 1:39 PM