یوپی میں ڈی جی پی کی تقرری کا اختیار اب مرکز کے بجائے یوگی حکومت کے پاس، اکھلیش نے اٹھایا سوال

یوپی کی یوگی حکومت نے ڈی جی پی کی تقرری کے لیے ہائی کورٹ کے سبکدوش جج کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دی۔ اکھلیش یادو نے اس اقدام پر سوال اٹھایا کہ آیا یہ مرکز اور یوپی حکومت کے درمیان مقابلہ ہے؟

<div class="paragraphs"><p>اکھلیش یادو اور یوگی آدتیہ ناتھ (فائل)</p></div>

اکھلیش یادو اور یوگی آدتیہ ناتھ (فائل)

user

قومی آواز بیورو

یوگی حکومت نے ضمنی انتخاب سے قبل ایک بڑا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت اب اتر پردیش کا ڈی جی پی کون ہوگا اس کا فیصلہ مرکز نہیں خود یوپی حکومت کرے گی۔ پیر کو ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں اس تجویز پر مہر لگ گئی جس میں یو پی ایس سی کو پینل نہیں بھیجنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا بھی رد عمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو 'دہلی بمقابلہ لکھنؤ' قرار دیا ہے۔

اکھلیش یادو نے ڈی جی پی معاملے کو 'دہلی بمقابلہ لکھنؤ' بتاتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے "سنا ہے کسی بڑے افسر کو مستقل عہدہ دینے اور اس کی مدت کار 2 سال بڑھانے کا نظام بنایا جا رہا ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ نظام بنانے والے خود 2 سال رہیں گے یا نہیں۔ کہیں یہ دہلی کے ہاتھ سے لگام اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش تو نہیں ہے، دہلی بمقابلہ لکھنؤ 2.0 ۔


قابل ذکر ہے کہ یوگی حکومت نے ڈی جی پی کے انتخاب کے لیے ہائی کورٹ کے سبکدوش جج کی صدارت میں کمیٹی بنائی ہے جس میں چیف سکریٹری، یو پی ایس سی کی طرف سے نامزد ایک شخص، اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے صدر یا ان کی طرف سے نامزد شخص، ایڈیشنل چیف سکریٹری یا چیف سکریٹری (داخلہ) اور ایک سبکدوش ڈی جی پی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔ پنجاب کے بعد یوپی ملک کی دوسری ریاست بننے جا رہی ہے جہاں ڈی جی پی کی تقرری کو لے کر نیا نظام بنایا گیا ہے۔ اتر پردیش میں آخری فُل ٹائم ڈی جی پی مکل گوئل تھے جنہیں 11 مئی 2022 کو عہدہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ تب سے یہاں کارگزار ڈی جی پی بنائے جانے کی روایت شروع ہو گئی۔

خبروں پر یقین کریں تو پرشانت کمار کو فُل ٹائم ڈی جی پی بنانے کی تیاری ہے۔ ڈی جی پی کی تقرری کے لیے پہلے کے نظام کے مطابق حکومت پولیس خدمات میں 30 سال پورے کر چکے ان افسران کے نام یو پی ایس سی کو بھیجتی تھی، جن کی چھ مہینے کی مدت کار باقی ہو۔ یو پی ایس سی ریاستی حکومت کو تین افسران کے ناموں کا پینل بھیجتی تھی، جس میں سے حکومت کسی ایک کو ڈی جی پی بناتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔