دہلی: منڈاولی کے حالات جہنم سے بدتر

متاثرہ خاندان ایسی گلی میں رہتا ہے جہاں آٹو والا تو کیا ای رکشا والا بھی جانے کو تیار نہیں ہوتا لیکن جمعرت کو یہاں ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، پولس افسران اور وی آئی پی لوگوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ذہیب اجمل

دہلی کا منڈاولی علاقہ جہاں منگل کے روز یعنی 24 جولائی کو 3 بچیوں کی بھوک سے موت ہو گئی، وہاں سے دہلی-میرٹھ ایکسپریس وے کچھ ہی دوری پر ہے جس کا افتتاح تقریباً ایک ماہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔

جس عمارت میں بھوک سے 3 بچیوں نے دم توڑا اسی میں مایا نامی خاتون رہتی ہے۔ یومیہ مزدور کی بیوی اور دو بچوں کی ماں مایا بھی غریبی کی گرفت میں ہے۔ اپنے خاندان کو چلانے کے لئے اسے کام کی تلاش کرنے میں کافی مشکلیں آتی ہیں۔ مایا کہتی ہے، ’’آپ ہم سے کہیں گے کہ میرے گھر کے برتن دھو دو تو ہم وہ بھی کر دیں گے۔ آپ لوگوں کے جھوٹھے برتن دھوکر ہی ہمارا گھر چلتا ہے۔ ‘‘ وہ ایک ایسے کمرے میں رہتی ہے جس میں نہ تو کوئی کھڑکی ہے اور نہ ہی بیت الخلا۔

اسی عمارت میں بہار، یوپی اور مغربی بنگال سے آئے لوگوں کے تقریباً 14 خاندان رہتے ہیں۔ کھانے پینے کی کمی، صاف صفائی اور بنیادی سہولیات کا فقدان اور دیگر تمام طرح کے مسائل یہاں صاف نظر آتے ہیں۔

دہلی: منڈاولی کے حالات جہنم سے بدتر

متاثرہ خاندان اس جگہ کے پاس رہتا ہے جہاں لوگ کوڑا ڈالتے ہیں۔ یہاں ٹیکسی، آٹو والا تو کیا ای رکشہ والا بھی جانے کو تیار نہیں ہوتا، لیکن جمعرت کو یہاں ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی ، پولس افسران اور وی آئی پی لوگوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ یہ علاقہ دہلی کے وزیر اعلی منیش سسودیا اور رکن پارلیمنٹ مہیش گری کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے۔

4 بچوں کی مان رجنی نے کہا، ’’ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے علاقہ میں رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی آئے ہیں۔ یہاں سڑکوں پر نالی کا پانی ہمیشہ بہتا رہتا ہے۔ 14 خاندانوں کے لئے صرف ایک ٹائلٹ ہے، جبکہ ہر خاندان میں 4-5 ارکان رہتے ہیں۔ یہاں کھلے میں رفع حاجت کرنا معمول کی بات ہے۔‘‘

دہلی: منڈاولی کے حالات جہنم سے بدتر

یہیں کی رہائشی منورما نے کہا ’’مجھے یاد نہیں کہ آخری بار میونسپلٹی کے لوگ کب آئے تھے! پانی کی نکاسی کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے واٹر لاگنگ کے تو ہم عادی ہو چکے ہیں۔ یہاں کے سارے رہنما صرف اپنے فائدے کے لئے آتے ہیں۔ یہاں کے نہ جانے کتنے خاندان بھکمری کے شکار ہیں لیکن میڈیا یا سیاسی پارٹی کا کوئی آدمی یہاں نہیں آتا۔‘‘

منگل کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ جس ہینڈپمپ پروہ لوگ نہانے جاتے تھے اس جگہ کو بھی اب کوڑا پھینکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

منڈاولی علاقہ میں رکشہ چلانے والے منگل سنگھ کی تین بچیوں کی بھوک سے موت ہونے کے بعد سے یہ معاملہ شہ سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔ سانحہ سے چند روز قبل منگل کا رکشہ کھو گیا تھا، رکشہ اور مکان کے مالک نے اسے مکان سے نکال دیا۔ منگل کے ایک دوست نے اسے پناہ دی۔ اس کے بعد سے منگل کام کی تلاش میں گھر سے نکلا جو ابھی تک واپس نہیں لوٹا ۔ باپ منگل کی غیر حاضری میں ہی بچیوں کی موت ہوئی، جبکہ ماں کی دماغی حالات ٹھیک نہیں ہے۔

جس کمرے میں منگل سنگھ اور اس کا خاندان 21 جولائی سے پہلے تک رہتا تھا وہ ایک کار جتنا بڑا ہے، اس میں کوئی کھڑکی بھی نہیں ہے۔ عمارت کے مالک کوشل مہرا ہیں اور اس میں دوسری ریاستوں سے آئے 10 مزدور رہتے ہیں۔ گلی بہت تنگ ہے اور بدبو دار بھی ہے، یہاں سڑک پر جانوروں اور انسانوں کا میلا پھیلا رہتا ہے۔ پانی کی نکاسی یہاں پھیلے ہوئے کوڑے کی وجہ سے بند ہو گئی ہے۔ سیلن سے پُر اس گلی میں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی اور عشروں پرانی عمارتیں کمزور ہو چکی ہیں۔

ایک ہوٹل میں کام کرنے والے تین مہینے پہلے اس عمارت میں رہنے آئے سنتوش نے کہا ’’یہاں پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، ہم نہانے، پینے اور کھانا بنانے کے لئے ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرتے ہیں۔‘‘

دہلی کا منڈوالی علاقہ ہی ایسا نہیں ہے جہاں کے حالات نرک جیسے ہیں بلکہ جعفرآباد، بدرپور، سنگم وہار اور ترلوک پوری وغیرہ کے علاقے بھی کم وبیش ایسے ہی ہیں۔ لوگ باہر کی ریاستوں سے بہتر زندگی بنانے اور بہتر مواقع کی تلاش میں بڑے شہروں میں آ تو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات انہیں ایسے علاقے اور حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جو جانوروں کے بھی رہنے کے لائق نہیں ہوتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Jul 2018, 9:28 AM