شرمناک: 3 بچیوں کی بھوک سے موت نے حکومت پر اٹھائے سوال 

تینوں بچیوں میں سے دو بچیاں گذشتہ کچھ دنوں سے بیمار چل رہی تھیں، انہیں الٹی دست کی شکایت تھی۔ لیکن ان بچیوں کے ساتھ تیسری 8 سالہ بچی کی بھی موت ہو گئی، جس سے کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ذہیب اجمل

دو روز قبل دہلی منڈاولی علاقہ میں تین بہنوں نے بھوک کے سبب تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اس واقعہ سے قومی راجدھانی دہلی ہی نہیں بلکہ پورا ملک صدمہ میں ہے اور اس نے حکومت اور سماج پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ ذی شعور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ملک کی راجدھانی کے اندر تین بچیاں بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں تو دور دراز اور دیہی علاقوں کا تو خدا ہی مالک ہے۔ بچیوں کی پوسٹ مارٹ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ بچیوں کی موت بھوک اور اس کے سبب بدن میں پیداشدہ دقتوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔جس گھر میں خاندان رہ رہا تھا وہاں سے کچھ ادویات کی شیشیاں بھی برآمد ہوئیں ہیں۔

دراصل بچیوں کے والد منگل کا رکشہ کھو گیا جس کو چلا کر وہ اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ منگل نے کوشل مہرا نامی شخص کا مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا اور اسی کا رکشہ بھی چلاتا تھا۔رکشہ کھو جانے کے بعد کوشل نے منگل کو اپنے مکان سے نکال دیا، لہذا منگل کے دوست بھگت سنگھ نے اس کے خاندان کو اپنے کرایہ کے ایک کمرہ کے مکان میں پناہ دے دی۔ منگل کام کی تلاش میں گھر سے نکلا جو ابھی تک واپس نہیں لوٹا ہے۔ باپ منگل کی غیر حاضری میں ہی بچیوں کی موت ہوئی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

پڑوسی روپ سنگھ کا کہنا ہے کہ تینوں بچیوں میں سے دو بچیاں گذشتہ کچھ دنوں سے بیمار چل رہی تھیں، انہیں الٹی دست کی شکایت تھی۔ لیکن ان بچیوں کے ساتھ تیسری 8 سالہ بچی کی بھی موت ہو گئی ، جس سے کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ مثلاً یہ بچی پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی ، تو کیا اسے وہاں دوپہر کا کھانا (مڈ ڈے میل) نہیں مل رہا تھا؟

پولس اس زاویہ سے بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ تیسری بچی اچانک اتنی بیمار کس طرح ہو گئی کہ اس کی بھی موت واقع ہوگئی۔ پولس کا کہنا ہے کہ معاملہ کی ہرزاویہ سے تفتیش کی جا رہی ہے ، اس کا بھی پتہ لگایا جا رہا ہے کہ بچیوں کی موت واقعی غذائی قلت کے سبب واقع ہوئی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

’قومی آواز ‘نےمنڈاولی کے پرائمری اسکول کی پرنسپل سے بات کی ۔ انہوں نے کہا ’’اسکول میں بچی کی حاضری جولائی میں محض دو دن کی ہے ۔ وہ ڈی ہائیڈریشن (پانی کی کمی ) کی بیماری میں مبتلا تھی لہذا ان دو دنوں کے دوران اس نے مڈ ڈے میل نہیں لیا۔ ‘‘

کیجریوال حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے دہلی پردیش کانگریس کے سربراہ اجے ماکن نے کہا ’’بچیوں کی موت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صوبائی حکومت کا نظام کے پوری طرح ناکام ہے۔ جبکہ خاندان کے پاس راشن کارڈ تھا اور بڑی بچی سرکاری اسکول میں پڑھ رہی تھی ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو خاندان کو راشن مل رہا ہوگا اور نہ ہی بچی کو مڈ ڈے میل مل سکا۔ عام آدمی کینٹین محض کاغذوں میں ہی چل رہی ہے۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

مشرقی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ مہیش گری نے عام آدمی پارٹی حکومت پر حملہ بولتے ہوئے اسے راشن کارڈ کا گھوٹالہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچیوں کی موت کی ذمہ دار دہلی حکومت پرہے۔ انہوں نے کہا ’’متاثرین کو راشن نہیں مل رہا تھا، اموات پر سیاست نہیں ہونی چاہئے لیکن سانحہ کی ذمہ داری طے کرنی ضروری ہے۔ عام آدمی پارٹی 4 سالوں سے اقتدار میں ہے لیکن وہ مستحقین تک راشن پہنچانے میں ناکا م رہی ہے۔ ‘‘

مدھےپورہ کی رہائشی اور منگل کی پڑوسی سنتوش کا کہنا ہے ’’منگل ایک عادی شرابی تھا اور اس کا خاندان ہمیشہ کھانے کی قلت سے دو چار رہتا تھا۔ اس کے بچے ہم سے کھانا مانگ کر کھاتے تھے۔ بچوں کی ماں دماغی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

’قومی آواز ‘نے لال بہادر شاستری کی ایم ایس (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ) سے بات کرنی چاہی لیکن انہوں نے مصروفیت کا حوالہ دیتے ہوئے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ بچیوں کو علاج و پوسٹ مارٹم کے لئے میوروہار میں واقع اسی اسپتال میں لایا گیا تھا۔

دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے بچیوں کی موت کے بعد دیئے بیان میں گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ میں نے اطفال و بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارے سے رپورٹ طلب کی ہے اور خاندان کو فوری طور پر 25 ہزار روپے کی مالی امداد دی گئی ہے ۔ دماغی طور سے بیمار ماں کا اسپتال میں علاج کرایا جائے گا، بچیوں کے والد کی جیسے واپسی ہوگی اسے مالی امداد فراہم کی جائے گی۔‘‘

منگل کے پڑوسیوں اور دیگر لوگوں سے بات کر نے پر معلوم ہوا کہ منگل کی فیملی کو کبھی راشن نہیں مل سکا۔ کئی خاندانوں کے لئے راشن کارڈ کا بن پانا بھی ایک خواب کی طرح ہے۔ پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے کہا کہ ’’4 سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب کوئی ایم پی یا ایم ایل علاقہ کا دورہ کر رہا ہے۔ ‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jul 2018, 7:01 AM